جسمانی اعضا سے محروم انسانوں کے لئے اُمید کی کرن
30 مارچ 2010اس ادارے کاقیام 1981ء میں جرمن حکومت کے تعاون سے عمل میں آیا۔ شروع میں ایک کمرے کوورکشاپ کے طورپر استعمال کیاجاتا رہا جہاں افغان جنگ کے دوران زخمی ہونے اور اعضا سے محروم ہونیوالوں کیلئے مصنوعی اعضا تیار کیے جاتے رہے اس ادارے میں جنگ سےمتاثرہ افراد کے علاوہ مختلف حادثات اور بیماری کی وجہ سے ناکارہ ہونیوالے اعضا کا علاج بھی کیاجاتا ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 2005ء میں آنیوالے زلزلے کی وجہ سے اس ادارے کا کام بڑھ گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے صوبہ سرحد اورقبائلی علاقوں میں ہونیوالے بم دھماکوں اورخودکش حملوں کی وجہ سے اس مرکز میں روزانہ پچاس سے ساٹھ مریض آتے ہیں۔
آج کل اس ادارے میں اسی فیصد ایسے معذور آتے ہیں جو بم دھماکوں اورخودکش حملوں میں زخمی ہونے کے بعد مصنوعی اعضا لگوانا چاہتے ہیں ان مریضوں میں مردوں کے علاوہ خواتین اوربچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ’پی پاس‘ کے ڈائریکٹر سالک علی سید کا کہناہے کہ'' یہ ادارہ بلاتفریق مریضوں کی مدد کرتاہے پہلے اس مرکز میں زیادہ تر افغانستان سے مریض آتے تھے آج کل اسی فیصد قبائلی علاقوں جس میں باجوڑ ، شمالی وزیرستان اور ملاکنڈ ڈویژن شامل ہے سے آتے ہیں۔ ہم یہاں دیگر بیماریوں کی وجہ سے معذورہونیوالے افراد کا علاج بھی کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث اب زیادہ تر وہ لوگ یہاں آتے ہیں جو دہشت گردی کے واقعات میں زخمی ہونے کے بعد ہاتھ یا پیر سے محروم ہوئے ہوں ۔ حالات کی وجہ سے ہمارے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے ہمارا ادارہ خود مختار ہے اگرچہ یہ سرکاری ادارہ ہے لیکن ہم حکومت سے فنڈز نہیں لیتے بلکہ زیادہ ترغیر سرکاری تنظیموں کے سپورٹ سے یہ ادارہ چلتا ہے یہاں سالانہ چھ ہزار مریض دیکھے جاتے ہیں۔ یہاں ہم سرحد، قبائلی علاقوں اورافغانستان سے آنیوالے مریضوں کا علاج مفت فراہم کرتے ہیں۔
پہلے افغانستان سے مریض زیادہ آتے تھے اب قبائلی علاقوں سے زیادہ آتے ہیں‘‘آٹھ سال کی جنگ کے دوران جہاں ہزاروں مرد جاں بحق اورمعذور ہوئے ہیں وہاں خواتین زخمیوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ نسرین نامی ایک خاتون کے بقول ’’میں اپنے گھر کے باہر رکشے کے انتظار میں کھڑی تھی کہ اس دوران دھماکہ ہوا اس دھماکہ میں میرابیٹا زخمی ہوا خالہ جاں بحق ہوئی جبکہ ایک ہمسایہ بھی ہلاک ہوا جب سے زخمی ہوئی ہوں علاج کا خرچہ خودبرادشت کررہی ہوں اب تک پانچ سے چھ لاکھ روپے ہسپتال میں خرچ ہوئے جبکہ مجموعی طورپر آٹھ لاکھ کاخرچہ آیا حکومت نے کوئی امداد نہیں کی ہے۔‘‘ نسرین کے علاوہ وزیرستان ، باجوڑ ، بنوں اور سوات سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین بھی یہاں علاج کی غرض سے انتظارگاہ میں نظر آتی ہیں۔
تاہم پختون روایات کی وجہ سے بات کرنے اورفوٹواتارنے سے گریز کرتی ہیں خواتین کے علاوہ کئی مرد اور نوجوان بھی مصنوعی پیر لگانے کے بعد ایکسرسائز کرتے دکھائی دیتے ہیں ان میں چالیس سالہ سعید خان بھی شامل ہیں جوایک غیر سرکاری ادارے میں ڈرائیور تھے تاہم ایک خودکش حملے میں پیر سے محروم ہوگئے ہیں سعید خان کاکہناہے کہ ''حکومت نے جس امداد کاوعدہ کیا تھا وہ کسی طرح پورانہ ہوسکا تاہم انکا علاج آئی سی آر سی نے کیا جبکہ مصنوعی پیر لگانے کی ذمہ داری ’پی پاس‘ نے لی ہے۔ وہ کہتے ہیں’ میں ڈیوٹی پرتھا اورسٹاف کو گھر چھوڑ کرواپس آرہاتھا کہ خودکش دھماکہ ہوا جس میں میری ٹانگ ضائع ہوئی حکومت نے ایک لاکھ روپے امداد دی مگر پھر کہاکہ مزید دینگے لیکن ابھی تک نہیں دی‘‘ پی پاس میں روزانہ درجنوں مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں یہاں جدید ترین آلات کے ذریعے ملکی اورغیر ملکی ماہرین کی نگرانی میں ہزاروں افراد کامفت علاج کیا جاتا ہے ادارے کے وسائل محدود ہونے کے باوجود سالانہ تین ہزار افراد کو مصنوعی اعضا لگائے جاتے ہیں ۔
ادارے کے ری ہیبلی ٹیشن منیجر ضیا الرحمان کہتے ہیں کہ'' مستقبل میں موبائل سروس سمیت صوبے کے ہر ضلع میں ایک مرکز کےقیام کی تیاری کررہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ آنیوالے مریضوں کو سب کچھ مفت فراہم کریں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے انفراسٹرکچر ایسا نہیں ہے کہ اس بوجھ کو اٹھا سکے حکومت مالی امداد فراہم نہیں کرتی لیکن اسکے باوجود یہ ادارے جسمانی طورپر معذور ہونیوالوں کو بھرپور امداد فراہم کررہے ہیں۔
اب مزید توسیع کا پروگرام ہے ہرضلع میں مرکز بنانے اورایجنسی ہیڈ کوارٹرہسپتالوں میں مراکز قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھارہے ہیں‘‘پی پاس سے اب تک ہزاروں افراد مستفید ہوئے ہیں جبکہ اس سلسلے کواب مزید آگے بڑھایا جارہاہے اس ادارے کوحکومت کی جانب سے کوئی مالی امداد نہیں دی جاتی بلکہ یہ انٹرنیشنل ریڈکراس کے تعاون سے آگے بڑھ رہاہے اس ادارے کے ساتھ تعاون کرنیوالے آئی سی آر سی کے فلیپ کا کہنا ہے کہ''وہ ہرقسم کا تعاون فراہم کررہے ہیں پاکستان میںمصنوعی اعضا تیار کرنے کایہ منفرد ادارہ ہے بنیادی طورپر پی پاس کے ساتھ انکا معاہدہ پانچ سال کیلئےہے ان کا بنیادی مقصد جنگ یا بدامنی سے متاثرہ افرادکی مدد کرناہے پی پاس کے ساتھ تعاون بھی اس بنیاد پر ہے۔"پی پاس میں روزانہ درجنوں مریض آتے ہیں تاہم منصوبہ بندی کے تحت یہاں مقامی لوگوں کو بھی تربیت فراہم کی جاتی ہے ہرسال پی پاس میں بارہ طلبا وطالبات کوداخلہ دیا جاتا ہے چارسال تک انہیں تھیوری اورعملی تربیت دینے کے بعد پشاوریونیورسٹی کی وساطت سے گریجویشن کی ڈگری دی جاتی ہے جسکا بنیادی مقصد تیکنیکی بنیادوں پر خود کفیل ہونا ہے۔
رپوٹ فریداللہ خان
ادارت کشور مصطفیٰ