1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمایران

جسم فروشی: ایرانی خواتین کی اسمگلنگ کے جرم میں پھانسی

20 مئی 2023

تہران حکومت نے جسم فروشی کے لیے ایرانی خواتین ہمسایہ ممالک اسمگل کرنے کے الزام میں ایک شخص کو پھانسی دے دی ہے۔ حالیہ کچھ برسوں کے دوران نہ صرف عرب بلکہ دیگر ممالک میں بھی ایرانی جسم فروش خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

Iran, Prostitution in Teheran
تصویر: MEHR

ایرانی عدلیہ کے مطابق ایک ایسے نیٹ ورک کے سربراہ کو پھانسی دے دی گئی ہے، جو ایرانی خواتین کو جسم فروشی کے لیے پڑوسی ممالک میں اسمگل کرتا تھا۔ ایرانی عدلیہ کی میزان نیوز ایجنسی کے مطابق جس شخص کو پھانسی دی گئی ہے، اس کا نام شہروز سخنوری اور وہ ''ایلکس‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

 سخنوری کو سن دو ہزار اکیس میں 'زمین پر فساد‘ پھیلانے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اس سزا پر عمل درآمد ہفتہ بائیس مئی کی صبح کیا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق  ''ایلکس‘‘ کو سن 2020 میں ملائیشیا میں انٹرپول کے تعاون سے پکڑا گیا تھا اور بعدازاں اسے ایران منتقل کر دیا گیا تھا۔

 دو سال قبل ایران نے انہی الزامات کے تحت دو خواتین کو بھی پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ تاہم ان خواتین کے وکلاء دفاع کا کہنا تھا کہ متاثرہ خواتین 'ایل جی بی ٹی‘ حقوق کی کارکن  اور  بے قصور تھیں۔

ایران میں ’عارضی شادیوں‘ کے خلاف حکومتی منصوبہ

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے سن 2017 میں ایران کو اُن ممالک کی فہرست میں شامل  کر دیا تھا، جو انسانی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم 'آفتاب سوسائٹی‘ کے مطابق صرف تہران میں سیکس ورکرز کے تعداد آٹھ سے دس ہزار کے قریب ہےتصویر: Mehr

ایران میں جسم فروشی

ایک غیر سرکاری تنظیم 'آفتاب سوسائٹی‘ کے مطابق صرف تہران میں سیکس ورکرز کے تعداد آٹھ سے دس ہزار کے قریب ہے۔ اگرچہ ایران میں جسم فروشی غیر قانونی ہے لیکن نکاح متعہ (عارضی شادی) دو جنسوں کے درمیان معاہدے کے تحت مختصر مدت کے تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔

 اس رجحان میں کمی کے لیے تہران حکومت نے ایک ایسی ویب سائٹ بھی لانچ کر رکھی ہے، جس کا مقصد تیس برس سے کم عمر نوجوانوں میں دائمی یا مستقل شادیوں کو فروغ دینا ہے۔

پیدائش، شادی اور موت، کوکس بازار میں زندگی رواں

ایران کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے بھی بہت سے ایرانی نوجوانوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور وہ مستقل شادیوں سے گریزاں ہیں۔ اس ملک میں سینکڑوں ایسی ''غیر قانونی اور غیر اخلاقی‘‘ ویب سائٹس ہیں، جو نوجوانوں میں صیغہ یا متعہ کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے گروہ ایرانی لڑکیوں، لڑکوں اور خواتین کو خلیجی ممالک، افغانستان، عراق، پاکستان  اور یورپ تک لاتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دبئی میں ایرانی جسم فروش خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ان میں سے کئی ممکنہ طور پر انسانی اسمگلنگ کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔

 ا ا / ع ت (روئٹرز، اے ایف پی)

ثقافتی طائفوں کے نام پر جسم فروشی کے لیے انسانی اسمگلنگ

12:36

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں