جسم فروشی کے خلاف عالمی دن: ’یہ پیشہ نہیں، استحصالی نظام ہے‘
5 اکتوبر 2021
جرمنی میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو جسم فروشی کے خلاف زیادہ سخت قوانین متعارف کرانا چاہییں۔ اس تنظیم کے مطابق جسم فروشی کوئی عام پیشہ نہیں بلکہ ایک پرتشدد استحصالی نظام ہے۔
اشتہار
تحفظ حقوق نسواں کے لیے فعال Terres des Femmes یا 'ویمنز ارتھ‘ (TDF) نامی اس تنظیم نے یہ مطالبہ آج منگل پانچ اکتوبر کو منائے جانے والے جسم فروشی کے خلاف عالمی دن کے موقع پر کیا۔ ٹی ڈی ایف کے مطابق جرمنی میں جسم فروشی کی حوصلہ شکنی کے لیے زیادہ سخت قوانین اس لیے متعارف کرائے جانا چاہییں کہ یہ دیگر عام پیشوں کی طرح کا کوئی پیشہ نہیں ہے۔
عوامی سطح پر بحث سے اجتناب
اس جرمن تنظیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں پیشہ ور جسم فروشوں کے طور پر جنسی خدمات پیش کرنے والے کارکنوں، خاص کر خواتین کو جس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں نہ صرف نظر انداز کر دیا جاتا ہے بلکہ ان کے بارے میں عوامی سطح پر کھل کر بحث بھی نہیں کی جاتی۔
'ویمنز ارتھ‘ کے لیے کام کرنے والی ایک سابقہ سیکس ورکر وکٹوریہ نے اس موقع پر اپنی مکمل شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ''جسم فروشی صرف وہی سب کچھ نہیں ہوتا، جو کسی جسم فروش انسان اور اس کے گاہک کے درمیان جنسی رابطے کی صورت میں ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ''جسم فروشی ایک پرتشدد اور منظم استحصالی نظام ہے، اس نظام سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے تدارک اور متاثرہ انسانوں کی مدد کے لیے اسے ایک نظام کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے اور اس کا حل بھی منظم انداز میں ہی نکالا جانا چاہیے۔‘‘
جرمنی میں جسم فروشی قانوناﹰ ممنوع نہیں ہے بلکہ ایک پیشے کے طور پر اس کے تمام ممکنہ پہلوؤں کا احاطہ کرنے والے ملک گیر قوانین عرصہ دراز سے نافذ ہیں۔ چند یورپی ملکوں میں ایسی قانون سازی بھی ہو چکی ہے، جس کے تحت جنسی خدمات خریدنا قانوناﹰ جرم ہے۔ اسی طرح کے نئے قوانین کا ٹی ڈی ایف نامی تنظیم کی طرف سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
جسم فروشی کے خلاف دن کے موقع پر Terres des Femmes نے مطالبہ کیا ہے کہ جرمن حکومت وفاقی سطح پر نئی قانون سازی کرتے ہوئے کسی بھی صورت میں جنسی خدمات خریدنے اور قحبہ خانے چلانے کو باقاعدہ طور پر قابل سزا جرم قرار دے دے۔
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ریاست کو ایسیسیکس ورکرز کی بھی اب تک کے مقابلے میں زیادہ سماجی اور مالی مدد کرنا چاہیے، جو جسم فروشی ترک کر کے اپنے لیے کسی دوسرے ذریعہ روزگار اور معمول کی سماجی زندگی کی خواہش مند ہوں۔
اشتہار
جسم فروشی کے خلاف عالمی دن
دنیا بھر میں جسم فروشی کے مخالفین کی طرف سے اس پیشے کے خلاف بین الاقوامی دن ہر سال پانچ اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی سطح پر یہ دن منانے کا سلسلہ 2002ء میں شروع ہوا تھا۔
یہ دن مناتے ہوئے جسم فروشی کی مخالف تنظیمیں اور سماجی گروپ یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اکثر سیکس ورکرز یہ کام مجبوراﹰ کرتے ہیں اور اگر انہیں ذریعہ روزگار کے طور پر دیگر امکانات دستیاب ہوں، تو اس پیشے کو ترک کر دینا ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
م م / ک م (ڈی پی اے)
بنگلہ دیش میں جسم فروشی
بنگلہ دیش میں 2000ء سے جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی ملک میں جبری جسم فروشی انتہائی تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
جبری جسم فروشی
بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو کم عمری میں جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں آباد بہت سے غریب خاندان 20 ہزار ٹکوں کے عوض اپنی لڑکیوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان لڑکے شادی کا لالچ دے کر لڑکیوں کو اس دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
پرکشش بنانے والی ’ادویات‘ کا استعمال
جسم فروش لڑکیاں اکثر پرکشش دکھائی دینے کے لیے مخصوص دوائیں (اوراڈیکسن) استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ صحت مند دکھائی دیں اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ ایسی ہی دوائیں کسان اپنے مویشیوں کو موٹا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق طویل عرصے تک اوراڈیکسن کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
دوا کے بجائے ٹیکے
اوراڈیکسن کم عمر بالخصوص بارہ سے چودہ برس کی عمر کی لڑکیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایک قحبہ خانے کی مالکن رقیہ کا کہنا ہے کہ جواں سال جسم فروشوں کے لیے ٹیکے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
ادویات کا وسیع تر استعمال
غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی تقریباﹰ نوّے فیصد لڑکیاں اوراڈیکسن استعمال کرتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر والی جسم فروش خواتین میں بہت مقبول ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباﹰ دو لاکھ لڑکیاں جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
قحبہ خانوں میں مہم
ایکشن ایڈ نے جسم فروشوں کو اوراڈیکسن کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے قحبہ خانوں میں ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوائی کی عادی خواتیں کو مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے ایک کارکن کے مطابق یہ دوا استعمال کرنے والی عورتوں کا وزن تو تیزی سے بڑھ ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور سر میں درد کی شکایت بھی رہنے لگتی ہے۔
تصویر: GMB Akash
ایچ آئی وی انفیکشن
بنگلہ دیش کے مقامی اخبار جسم فروشوں کے ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی خبریں اکثر شائع کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ جسم فروش عورتوں کے مطابق ان کے اکثر گاہک کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تصویر: AP
جسم فروشی کے لیے بچوں کا استعمال
بنگلہ دیش میں یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے 2004ء کے ایک اندازے کے مطابق وہاں دس ہزار کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 29 ہزار ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
اسلام پسندوں کے حملے
گزشتہ برس اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش کے ایک جنوبی علاقے میں ایک قحبہ خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ تقریبا پانچ سو افراد بے گھر ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں جسم فروشی کے مراکز پر ایسے حملے معمول کی بات ہیں۔