جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے سو ارب ڈالر کی کمائی
16 جون 2021
دنیا بھر میں جنسی استحصال اور جبری جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے جرائم پیشہ گروہوں کو سالانہ تقریباﹰ سو ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ بات اس موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ڈی ڈبلیو کو بتائی گئی۔
اشتہار
دنیا کے مختلف ممالک میں جنسی استحصال کے لیے انسانوں، خاص کر عورتوں اور لڑکیوں کی اسمگلنگ ایک ایسا عالمگیر مسئلہ ہے کہ اس کے تدارک کے لیے بین الاقوامی برادری عرصے سے کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں اور غریب اور پسماندہ ممالک سے مقابلتاﹰ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی ایسی اسمگلنگ کو آج تک ختم نہیں کیا جا سکا۔
اشتہار
انسانوں کی اسمگلنگ اور 'سیاہ معیشت‘
اس بارے میں 'انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف اتحاد‘ نامی بین الاقوامی پلیٹ فارم کی 21 ویں کانفرنس آسٹریا میں پیر چودہ جون کو شروع ہوئی تھی، جو تین روز تک جاری رہنے کے بعد آج بدھ سولہ جون کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس میں یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کی طرف سے اس کے خصوصی مندوب اور ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے رابطہ کار ویلیئنٹ رِچی نے حصہ لیا۔
ویلیئنٹ رِچی نے انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے اور اس بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے آج بدھ کے روز ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ہیومن ٹریفکنگ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک پوری 'سیاہ معیشت‘ جنم لے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو ایسی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے زیادہ بھرپور اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔
یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے اس خصوصی مندوب نے ڈوئچے ویلے ٹیلی وژن کو بتایا کہ مختلف براعظموں میں جرائم پیشہ گروہ ہر سال جن بے شمار عورتوں اور بچوں کو جبری جسم فروشی کے لیے دوسرے شہروں یا ممالک میں اسمگل کر دیتے ہیں، ان سے انہیں تقریباﹰ 100 ارب ڈالر کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔
ویلیئنٹ رِچی کے مطابق، ''یہ رقم امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کارپوریشن کو ہونے والے سالانہ منافع کے تقریباﹰ برابر بنتی ہے اور اس سالانہ ناجائز کمائی کے حجم سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر جنسی استحصال کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ کتنا بڑا اور شدید مسئلہ ہے۔‘‘
پاکستانی لڑکیاں چین کیسے اسمگل کی جاتی ہیں؟
03:08
This browser does not support the video element.
جنسی خدمات کی خریداری تک مسلسل آمدنی
او ایس سی ای کے ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے ذمے دار کوآرڈینیٹر نے اس انٹرویو میں کہا کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے یہ اس لیے بہت پرکشش کاروبار ہوتا ہے کہ انہیں اسمگل شدہ افراد کو جنسی غلاموں کے طور پر بیچنے کے عوض بہت بڑی بڑی رقوم ملتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
11 تصاویر1 | 11
ویلیئنٹ رِچی کے الفاظ میں، ''ایسے بے بس اور اسمگل شدہ انسانوں سے جبراﹰ جسم فروشی کرانے والوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ جب تک ان کے ہاں آنے والے مرد جنسی خدمات کے لیے مالی ادائیگیوں پر تیار ہیں، انہیں مسلسل کمائی ہوتی رہے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایسی جسم فروشی اب صرف کسی بھی ملک یا شہر میں مخصوص جگہوں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ جنسی خدمات کی یہ ناجائز خرید و فروخت زیادہ سے زیادہ آن لائن بھی ہونے لگی ہے۔
''ایسی ہزاروں ویب سائٹس ہیں، جن کے ذریعے مجرمانہ کاروبار کے طور پر درپردہ لیکن ویسع پیمانے پر انسانوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے صرف انسانی معاشروں میں ہی نہیں بلکہ سائبر ورلڈ میں بھی سخت، مربوط اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
م م / ک م (ڈی ڈبلیو، آئی این اے)
بنگلہ دیش میں جسم فروشی
بنگلہ دیش میں 2000ء سے جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی ملک میں جبری جسم فروشی انتہائی تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
جبری جسم فروشی
بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو کم عمری میں جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں آباد بہت سے غریب خاندان 20 ہزار ٹکوں کے عوض اپنی لڑکیوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان لڑکے شادی کا لالچ دے کر لڑکیوں کو اس دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
پرکشش بنانے والی ’ادویات‘ کا استعمال
جسم فروش لڑکیاں اکثر پرکشش دکھائی دینے کے لیے مخصوص دوائیں (اوراڈیکسن) استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ صحت مند دکھائی دیں اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ ایسی ہی دوائیں کسان اپنے مویشیوں کو موٹا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق طویل عرصے تک اوراڈیکسن کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
دوا کے بجائے ٹیکے
اوراڈیکسن کم عمر بالخصوص بارہ سے چودہ برس کی عمر کی لڑکیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایک قحبہ خانے کی مالکن رقیہ کا کہنا ہے کہ جواں سال جسم فروشوں کے لیے ٹیکے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
ادویات کا وسیع تر استعمال
غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی تقریباﹰ نوّے فیصد لڑکیاں اوراڈیکسن استعمال کرتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر والی جسم فروش خواتین میں بہت مقبول ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباﹰ دو لاکھ لڑکیاں جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
قحبہ خانوں میں مہم
ایکشن ایڈ نے جسم فروشوں کو اوراڈیکسن کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے قحبہ خانوں میں ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوائی کی عادی خواتیں کو مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے ایک کارکن کے مطابق یہ دوا استعمال کرنے والی عورتوں کا وزن تو تیزی سے بڑھ ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور سر میں درد کی شکایت بھی رہنے لگتی ہے۔
تصویر: GMB Akash
ایچ آئی وی انفیکشن
بنگلہ دیش کے مقامی اخبار جسم فروشوں کے ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی خبریں اکثر شائع کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ جسم فروش عورتوں کے مطابق ان کے اکثر گاہک کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تصویر: AP
جسم فروشی کے لیے بچوں کا استعمال
بنگلہ دیش میں یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے 2004ء کے ایک اندازے کے مطابق وہاں دس ہزار کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 29 ہزار ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
اسلام پسندوں کے حملے
گزشتہ برس اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش کے ایک جنوبی علاقے میں ایک قحبہ خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ تقریبا پانچ سو افراد بے گھر ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں جسم فروشی کے مراکز پر ایسے حملے معمول کی بات ہیں۔