1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جس کا کام اسی کو چھاجے

DW Urdu Bloggerin  Sidrah Arshad
سدرہ ارشد
9 اگست 2023

"Jack of all trades is master of none"۔ لیکن جس نے بھی یہ کہا ہے اسے بھلا کیا معلوم کہ ہم پاکستانیوں کو سب آتا ہے اور ہمیں سب کرنا بھی ہے، بھلے ہم سب کرنے میں ناکام ہوں ۔ ہمیں ہر معاملے میں ہیروگیری دکھانی ہوتی ہے۔

تصویر: Privat

صدیوں سے رائج تاریخ ہمیں یہ سبق بخوبی سکھا گئی ہے کہ جو سب کرتا ہے وہ کچھ نہیں کرتا۔ ایک بادشاہ اچھا حکمران ہونے کے ساتھ اچھا جنگجو بھی ہو یہ لازمی نہیں، ایک ہیرو ایک اچھے ولن کا کردار بھی نبھا لے یہ بھی لازم نہیں اور تاریخ ایسی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے کیونکہ اگر یوں ہوتا تو کچھ بھی نا ہوتا اور جب بھی یہ ہوا نتیجہ کوئی خاطر خواہ نہیں نکلا کیونکہ جس کا کام اس کو چھاجے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جہاز کے عملے کا ایک رکن صفائی کے دوران کاک پٹ میں گیا۔ وہاں اس کی ایک کتاب پر نظر پڑی، جس کا عنوان تھا "ہاؤ ٹو فلائی آ پلین" یعنی جہاز کیسے اڑایا جائے"۔ تجسس کے مارے انسان نے پہلا صفحہ کھولا اور اسے لگا کہ بس اب سب بہت آسان ہے پڑھتا گیا۔کتاب میں سر دھنتا گیا اور جہاز نے اڑان بھر لی۔ جیسے جیسے جہاز اوپر کی سمت جاتا رہا اس کا تجسس بھی بڑھتا گیا، تقریبا آدھے گھنٹے بعد جب نیچے اتارنے کو صفحہ پلٹا تو درج تھا " باقی طریقہ کار جاننے کے لیے جلد دوم خریدیں"

کچھ یہی حال آج کل ہماری زندگیوں میں بھی چل رہا ہے اور اوپر سے موا گوگل سب کو سب بنانے اور سکھانے میں ماہر۔

اگر اپنے ارد گرد نظر گھما کے دیکھیں تو کتنے ہی لوگ ہوں گے جو خود کو ہر فن مولا ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ مسئلہ ان کی کوشش نہیں مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی بھونڈی حرکات کو نہ صرف جائز اور خود کو حق پر سمجھتے ہیں بلکہ اگر آپ ان سے ان کے اس طرز عمل سے اختلاف کریں تو آپ کو علی الاعلان جیلس ہونے اور جلنے کڑھنے کا طعنہ بھی ملے گا۔

بات شروع کرتے ہیں دور دراز اور دیہی علاقوں سے۔ ان علاقوں میں کمپاؤنڈرز خود کو بڑے دھڑلے سے ڈاکٹر کہہ کر متعارف کراتے ہیں اور سر عام علاج بھی کرتے ہیں اور سونے پر سہاگہ کہ عوام ناں صرف ایسے نیم حکیم خطرہ جان سے علاج کراتی ہے بلکہ ڈاکٹر صاحب کا تمغہ بھی گلے میں ڈال دیتی ہے۔

یہ محض ایک بہت ہی چھوٹی مثال دی گئی ہے کیونکہ دیہات اور پسماندہ علاقوں کو چھوڑ ہمارے شہروں کا حال بھی مختلف نہیں۔ کہیں ڈاکٹر سیاسی شو کے میزبان بنے بیٹھے ہیں تو کہیں چور اچکے سیاستدان بنے بیٹھے ہیں، الغرض یہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔

اب ایک رواج یہ بھی چل نکلا ہے کہ جسے کچھ نہیں آتا یا تو وہ "موٹیویشنل سپیکر " بن جاتا ہے یا "انفلوئنسر" بن جاتا ہے۔ دوسری صورت میں آپ نے بس ایک کام شروع کرنا ہے یا تو دین کا منجن بیچ کر معصوم لوگوں کو گمراہ کرنا ہے یا تو پھر یو ٹیوب اور ٹک ٹاک پر نہایت فضول اور سڑا ہوا مواد بنانا ہے۔ اور اوپر دی گئی دونوں صورتوں میں پیسا، دولت اور شہرت آپ کا شرطیہ مقدر۔

اگر دور دراز علاقوں سے لے کر شہری اور نیم شہری علاقوں تک کو یکساں سہولیات میسر ہوں تو اس میں سو فیصد نا سہی پچاس فیصد بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ یاد رہے یہاں ہم یکساں تعلیمی نظام کی بات ہرگز نہیں کر رہے۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف سستی شہرت اور آسان طریقہ کار سے پیسا کمانا جانتے اور ان کے کوئی تعلیم کوئی ہنر معنی نہیں رکھتا۔ ایزی منی یعنی آسان پیسہ بنانے کے لیے آج کل "اونلی فینز سے لیکر انسٹاگرام اور دوسری سوشل سائٹس کا گھناؤنا اور بےدریغ استعمال ہماری نوجوان نسل کو نا صرف معاشرتی بدحالی کی طرف لے کر جا رہا ہے بلکہ انہیں ایک ایسی دلدل میں دھکیل رہا ہے، جس سے واپس آنے والے لاکھوں میں سے سینکڑوں ہیں اور بتائیے جب آسانی سے ایک کلک پر آپ کو وہ پیسا ملے گا تو آپ کی سولہ سالہ پڑھائی اور ڈگریوں کا آپ یقینی طور پر اچار ڈالنا زیادہ پسند کریں گے۔

پھر ایسے لوگ بھی ہیں جن میں لگن بھی ہے، تڑپ بھی ہے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ بھی لیکن درست اور واضح موقع کی کمی ہے۔ اگر ایسے لوگوں سے کام لیا جائے اور مواقع فراہم کیے جائیں تو بہت سارے درزی ڈیزائنر بن سکتے ہیں، بہت سارے کمپاؤنڈر ڈاکٹر اور بہت سارے انجینئرز سائنسدان بنائے جا سکتے ہیں اور بہت سارے سریا نما سرکاری افسران کی جگہ محنتی، مستحق اور حق پرست انسان لائے جا سکتے ہیں۔

جہاں کچھ قصور معاشرہ اور سسٹم کا ہے وہیں اس سے بڑھ کر قصوروار والدین اور تعلیمی ادارے بھی ہیں۔ ہمارے ہاں رٹو طوطے تو پیدا کیے جا رہے ہیں لیکن دلیل کی کمی ہے۔ کتابی کیڑے بے شمار ملیں گے لیکن خواب دیکھنے اور اپنی سمت کا تعین کرنے والے چند ہی ملیں گے۔ بحث کرنے والے بیش بہا اور کام کرنے والے گنتی میں اور وجہ ایک ہی ہے کہ ہمیں ڈگری کے پیچھے لگایا گیا ہے کیا بننا کیا کرنا جیسے سوالات ہمارے ذہنوں میں اٹھنے سے پہلے مار دیے جاتے ہیں۔

یہاں بحث کرنے والے کو بدتمیز اور سوال کرنے والے کو بے ادب کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں گنے چنے سرکاری، نیم سرکاری یا پرائیویٹ ادارے ہیں جہاں باقاعدہ کیریئر کونسلنگ کرائی جاتی ہے۔ چند ایک تعلیمی اداروں کے علاوہ باقی میں یہ ابھی مضمون کے طور پر بھی متعارف نہیں کرایا گیا۔

دنیا جہاں چاند پر قدم رکھ رہی ہے ہم وہیں دنیا کیا کہے گی کے چکر میں پھنسے ہیں۔ اگر درست مواقع نہیں ملیں گے، وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی، والدین، اساتذہ اور ادارے باقاعدہ لائحہ عمل نہیں بنائیں گے تو ہم صدیوں ایسے ہی گوگل ڈاکٹرز اور موٹیویشنل سپیکرز پیدا کرتے رہیں گے کیونکہ م کا کانسپٹ سمجھنے میں ابھی شاید ہم صدیوں کے فاصلے پر ہیں اور یہاں ہر کوئی ہر چیز با آسانی اور با مہارت کرنا جانتا ہے، سوائے اپنے کام کے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

سدرہ ارشد سدرہ ارشد کا تعلق پاکستان میں لاہور سے ہے اور وہ مختلف سماجی موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں