جعلی ملا منصور کو کابل آنے ہی نہیں دیا گیا۔ این ڈی ایس
28 نومبر 2010اس سے قبل اطلاعات تھیں کہ برطانوی خفیہ ایجنسی MI6 نے اس مبینہ جعلی طالبان کمانڈر کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے متعدد بار پاکستان سے افغانستان پہنچانے کا کام سر انجام دیا تھا۔ دی ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایم آئی کے ایجنٹ اس شخص کو رائل ایئر فورس کے طیارے میں متعدد بار کابل لاچکے ہیں۔
دی ٹائمز نے افغان ذرائع کے حوالے سے دعوٰی کیا تھا کہ اس شخص کو کابل کے صدارتی محل میں صدر حامد کرزئی سے بھی ملایا گیا تھا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس شخص کو، جسے اب کوئٹہ شہر کا ایک معمولی دکاندار بتایا جارہا ہے، بہت بڑی رقم بھی دی گئی تھی۔ افغان صدر کے چیف آف سٹاف داؤد عمر زئی کے بقول، جس وقت اس شخص سے بات چیت کی جارہی تھی اس وقت برطانوی سفارتکار بھی موجود تھے۔ افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ اس شخص سے نہیں ملے۔ برطانوی وزارت خارجہ نے ان خبروں کو نہ رد کیا ہے اور نہ ہی ان کی تصدیق کی ہے البتہ اتنا کہا ہے کہ، ’’ برطانیہ افغانستان میں مفاہمت کے عمل کے لئے عملی معاونت فراہم کر رہا ہے‘‘۔
ڈیلی ٹائمز نے نیٹو ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اس ’طالبان بہروپے‘ کو پاکستانی جاسوس ادارے آئی ایس آئی نے تیار کیا تھا تاکہ افغانستان میں مذاکرات کے عمل پر اثر ڈالا جاسکے۔ اس دعوے کو پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع بوگس قرار دیا ہے۔
افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سرحدی علاقے میں ان کے ایجنٹس کو اس شخص پر شبہ ہوا تھا اور اسے کابل میں داخلے سے قبل ہی روک لیا گیا۔ بیان میں تسلیم کیا گیا کہ افغانستان کے اندر بعض جنجگووں سے مذاکرات کا عمل جاری ہے۔
واضح رہے کہ ملا اختر محمد منصور طالبان حکومت میں مواصلات کے وزیر رہ چکے ہیں اور اس وقت وہ ملا عمر کے بعد طالبان کے دوسرے اعلیٰ ترین لیڈر ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر