جعلی ڈگری: مسلم لیگ نون کی ایم این اے نااہل
28 اکتوبر 2013سمیرا ملک قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 69 خوشاب سے 11 مئی کے انتخابات میں مسلسل دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست پر براہ راست مقابلے کے بعد منتخب ہوئی تھیں۔ سمیرا ملک کی اہلیت کو ان کے مخالف امیدوار، تحریک انصاف کے عمر اسلم اعوان نے الیکشن ٹریبیونل میں چیلنج کیا تھا، جہاں سے سمیرا ملک کے حق میں فیصلہ ہوا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبیونل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سمیرا ملک کو بی اے کی جعلی ڈگری رکھنے کا الزام ثابت ہونے پر یکم مارچ 2008 سے نااہل قرار دے دیا ہے۔
ماضی میں سمیرا ملک مسلم لیگ ( ق) کے ٹکٹ پر اسی نشست سے کامیاب ہوئی تھیں۔ اس سے قبل سمیرا ملک کی بہن اور تحریک انصاف کی رہنما عائلہ ملک بھی جعلی ڈگری کے الزام میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھو چکی ہیں۔
سمیرا ملک کے خلاف درخواست دہندہ کا الزام تھا کہ انہوں نے 1981 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تھا اور اس کے بعد 2002ء میں انتخابات سے قبل پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی جعلی ڈگری حاصل کی تھی۔
ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کا کہنا ہے کہ غلط بیانی کے ذریعے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے سیاستدان نہ صرف اپنے ووٹروں کو دھوکہ دیتے ہیں بلکہ ملک کی بدنامی کا سبب بھی بنتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارے معاشرے میں جتنے فراڈ اور کرپشن ہو رہی ہے، اگر یہی فراڈ اور کرپشن پارلیمنٹ کے ارکان بھی کریں گے تو یہ ملک کی بدنامی ہے اور ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اور بھی کچھ ایم این اے ہیں، جو سندھ سے بھی ہیں اور جعلی ڈگریوں پر ایم این اے بنے ہیں۔ ان کے کیس بھی سامنے آئیں گے، تو اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ پندرہ سے بیس تک مزید ارکان بھی نااہل قرار پائیں گے۔‘‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 2002 کے عام انتخابات سے قبل کسی بھی فرد کے لیے ملکی پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے کم از کم تعلیمی معیار گریجویشن کی شرط رکھی تھی۔ یہ قانون آنے کے بعد متعدد سینئر سیاستدان پارلیمنٹ میں نہیں آ سکے تھے جبکہ بہت سے سیاستدان جعلی ڈگریوں کا سہارا لے کر پارلیمنٹ میں تو پہنچ گئے تھے لیکن بعد ازاں انتخابی اعتراضات کے نتیجے میں الیکشن ٹریبیونلز اور سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے تھے۔
2008 کے انتخابات سے قبل نگران حکومت نے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے لیے بی اے کی شرط ختم کر دی تھی لیکن اس کے بعد بھی ایسے مقدمات سامنے آئے تھے جن میں ارکان نے جعلی ڈگریاں بنوا رکھی تھیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا قانون امتیازی تھا لیکن پھر بھی قانون کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پارلیمنیٹرینز ہی نہیں بلکہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد بھی جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ شاہی سید نے کہا، ’’سرکاری اداروں میں ہونے والی سب بھرتیاں بھی جعلی ڈگریوں پر ہیں۔ ہمارے پاس ایسے بھی ثبوت ہیں کہ ایک آدمی نوکری لینے کے لیے جا کر کہتا ہے کہ مجھے ملازمت چاہیے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی تعلیم کیا ہے تو وہ آدمی جواب دیتا ہے کہ جو ڈگری کہتے ہیں، لے آتا ہوں۔ آپ بتائیں کہ نشست کونسی خالی ہے تاکہ اس کے مطابق ڈگری لے کر آؤں۔ اس ملک میں سب کچھ جائز ہے۔‘‘
خیال رہے کہ سندھ سے پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری پر بھی جعلی ڈگری رکھنے کا الزام ہے اور ان کی پارلیمانی اہلیت سے متعلق مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔