جعلی ڈگری والوں کو عام معافی، 1400 پرائمری اساتذہ مستعفی
3 جولائی 2015![Indien Schulkinder Klassenraum Schule](https://static.dw.com/image/15920544_800.webp)
ریاست بہار کے شعبہٴ تعلیم کے پرنسپل سیکرٹری آر کے مہاجن نے کہا ہے کہ اپنی ڈگریوں میں جعل سازی کرنے والے اساتذہ کو مستعفی ہونے کے لیے ایک مخصوص مہلت دی گئی ہے اور اس مہلت کے اندر اندر مستعفی ہونے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس مہلت کے اندر اندر مزید اساتذہ کی جانب سے استعفوں کی توقع کی جا رہی ہے۔
ریاست بہار میں پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے۔ اس سال مئی میں ہائیکورٹ نے اس بناء پر تحقیقات کا حکم دے دیا تھا کہ ان میں سے پچیس ہزار تک اساتذہ ایسے ہیں، جو کسی باقاعدہ تربیت کے بغیر ہی سرکاری اسکولوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی مہلت نو جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔ جیسے ہی حکام نے اساتذہ کے کوائف اور اُن کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال شروع کی، مختلف اساتذہ کی جانب سے استعفے آنا شروع ہو گئے۔
آر کے مہاجن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک ایک ہزار چار سو استعفے آ چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ نو جولائی کو عام معافی کی مدت ختم ہونے کے بعد ہی بتایا جا سکے گا کہ درحقیقت کتنے اساتذہ نے اس رعایت سے فائدہ اٹھایا ہے اور خود بخود اپنی ملازمتوں سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔
آر کے مہاجن کے مطابق وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کے چلے جانے سے کوئی مسائل پیدا ہوں گے۔ اُنہوں نے یقین ظاہر کیا کہ تعلیمی نظام میں کوئی خلا پیدا نہیں ہو گا۔ ساتھ ہی مہاجن نے جلی ڈگریوں کے ساتھ بھی اپنی ملازمت جاری رکھنے کا فیصلہ کرنے والے اساتذہ کو انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا:’’یہ ایک مجرمانہ فعل ہے اور ایسے اساتذہ کو جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔‘‘
ریاست بہار کی جانب سے 2006ء میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی گئی تھیں۔ مہاجن نے بتایا کہ ’2006ء کے بعد سے ملازمتیں شروع کرنے والے تمام اساتذہ کی تعلیمی اسناد کو جانچا جا رہا ہے۔
یہ معاملہ گزشتہ مہینے سے شہ سرخیوں کا موضوع چلا آ رہا ہے۔ جون میں دہلی کے وزیر قانون جتیندر سنگھ تومار کو اپنی ڈگری سے متعلق جھوٹ بولنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
بھارت میں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم کا معیار ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے اساتذہ باقاعدگی سے کلاسیں نہیں لیتے۔
بھارت کے سرکردہ تعلیمی اور تحقیقی گروپ پراتھم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ دیہی علاقوں میں سرکاری اسکولوں سے پانچ برسوں کی پرائمری تعلیم مکمل کرنے والے آدھے سے زیادہ بچے اپنی مادری زبان میں بنیادی نوعیت کی عبارت لکھنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔