یورپ کے مرکزی بینک سے وابستہ ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق جس طرح جعلی خبروں (فیک نیوز) سیاست کے لیے خطرات کا باعث ہے، ویسے ہی جعلی ڈیٹا یورپی مالیاتی اور معاشی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach
اشتہار
جمعے کے روز یورپی مرکزی بینک کے بورڈ کے رکن بینوا کیوری نے کہا کہ ’گھٹیا معیار کے ڈیٹا‘ کی وجہ سے مالیاتی منڈیوں میں ’بدحواسی‘ اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہا ہے۔
کیوری نے کہا کہ یورپی مرکزی بینک بہت حد تک ان جائزوں پر تکیہ کر رہا ہے، جو یہ بتا سکیں کہ بینک کی جانب سے دیا گیا پیغام درست انداز سے وصول بھی کیا گیا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی طور پر کسی ڈیٹا کو نادرست طور پر قبول کیا جانا، مالیاتی پالیسیوں کی جہتوں اور مستقبل تک کو متاثر کر سکتا ہے۔
بیس یورو کا نیا کرنسی نوٹ آ گیا
مرکزی یورپی بینک ابتدا میں آنے والے یورو کرنسی نوٹ بتدریج بدل رہا ہے۔ پانچ اور دس یورو کے بعد اب بیس یورو کے نئے کرنسی نوٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان نئے نوٹوں کی نقل تیار نہیں کی جا سکے گی۔
تصویر: EZB
بدھ پچیس نومبر سے نیا نوٹ
یورو کرنسی کا اجراء تقریباً پندرہ برس پہلے عمل میں آیا تھا۔ گزشتہ دو برسوں سے مرحلہ وار ان کرنسی نوٹوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بدھ پچیس نومبر سے بیس یورو کا نیا کرنسی نوٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ مئی 2013ء میں پانچ یورو کا جبکہ ستمبر 2014ء میں دس یورو کا نیا کرنسی نوٹ جاری کیا گیا تھا۔ بعد میں بڑی مالیت کے نوٹ بھی تبدیل کر دیے جائیں گے۔
تصویر: Fotolia/ Tatjana Balzer
نئے اور پرانے کرنسی نوٹ ایک ساتھ
ابتدا میں نئے اور پرانے کرنسی نوٹ ایک ساتھ گردش میں رہیں گے۔ مرکزی یورپی بینک نے پرانے کرنسی نوٹوں کو مرحلہ وار واپس لینے کا پروگرام بنایا ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر پرانے نوٹ ادائیگی کے ذریعے کے طور پر اپنی حیثیت کھو دیں گے۔ ایسا کب ہو گا، مرکزی یورپی بینک کے صدر مایو ڈراگی اور اُن کی ٹیم نے ابھی یہ نہیں بتایا ہے۔ قومی بینک البتہ بعد میں بھی پرانے نوٹوں کے بدلے میں نئے کرنسی نوٹ فراہم کر دیں گے۔
تصویر: EZB
بیس یورو کے جعلی کرنسی نوٹ سب سے زیادہ
بیس یورو کے جعلی کرنسی نوٹ سب سے زیادہ گردش میں ہیں۔ جرمنی میں ہر پانچ جعلی نوٹوں میں سے چار نوٹ بیس یورو مالیت کے ہیں۔ بیس یورو کے نئے کرنسی نوٹ میں ایسے متعدد نشانات محفوظ کیے گئے ہیں، جن کے ہوتے ہوئے اس کی نقل تیار کرنا کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
یورپی سیریز
مرکزی یورپی بینک نے یورو کے نئے کرنسی نوٹوں کو ’یورپی سیریز‘ کا نام دیا ہے۔ بیس یورو کے نئے کرنسی نوٹ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک اہم علامت اس کا شفاف ہولوگرام ہے۔ اس کرنسی نوٹ کو روشنی میں رکھا جائے تو اس کی دونوں جانب ’یورپ‘ نامی اُس شہزادی کی تصویر نظر آئے گی، جس کے نام پر اس براعظم کا نام رکھا گیا تھا۔ یہ تصویر نئے کرنسی نوٹوں پر ایک سے زیادہ مرتبہ نظر آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
مزید خصوصیات
نئے کرنسی نوٹ کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں ایک اور علامت بیس کا وہ ہندسہ ہے، جس کا سبز رنگ کرنسی نوٹ کا رخ تبدیل کیے جانے پر نیلا ہو جاتا ہے اور جس پر روشنی کی ایک لکیر حرکت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ نئے کرنسی نوٹ کے کناروں پر اور اوپر درمیان میں درج بیس کے بڑے ہندسے پر ایک ایسی تصویر ہے، جسے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
رنگا رنگ کرنسی نوٹ
بظاہر نئے کرنسی نوٹ میں کچھ بدلا نظر نہیں آتا۔ پرانے نوٹ کی نیلاہٹ کچھ پھیکی تھی اور اُس کی پشت پر پیلا رنگ بھی نہیں تھا۔ نئے نوٹ پر ’یورو‘ کا لفظ لاطینی اور یونانی زبانوں میں ہی نہیں بلکہ کریلک میں بھی درج ہے۔ اسی طرح مرکزی یورپی بینک کا مخفف ECB بھی، جو اب تک پانچ زبانوں میں درج ہوتا تھا، نئے کرنسی نوٹوں میں نو زبانوں میں لکھا ہوا ملے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
فن تعمیر پر خصوصی توجہ
یورو کے کرنسی نوٹوں میں شروع سے فنِ تعمیر پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی رہی ہے۔ یہ سلسلہ نئے نوٹوں میں بھی جاری رکھا گیا ہے۔ نئے نوٹوں میں بھی مختلف ادوار کے تعمیراتی شاہکار پیش کیے گئے ہیں۔ بیس یورو کے نئے نوٹ پر بھی گوتھک طرزِ تعمیر ہی کا ایک نمونہ نظر آتا ہے۔
تصویر: Fotolia/imageteam
کاغذ کی بجائے روئی کا استعمال
ابتدائی طور پر بیس یورو کے 4.5 ارب کرنسی نوٹ جاری کیے گئے ہیں۔ فی کرنسی نوٹ آٹھ سینٹ کے حساب سے ان کی تیاری پر 360 ملین یورو کی لاگت آئی ہے۔ ان نئے کرنسی نوٹوں کو کوئی بھی ’پیپر منی‘ نہیں کہہ سکے گا کیونکہ یہ سُوتی ہیں اور روئی کو ایک خاص عمل سے گزارنے کے بعد اُس سے تیار کیے گئے ہیں۔
تصویر: EZB
سترہ ارب کرنسی نوٹ
یورو مشترکہ یورپی کرنسی ہے، جسے یورپ کے اُنیس ملکوں کے تقریباً 340 ملین انسان ادائیگی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آج کل تقریباً سترہ ارب کرنسی نوٹ گردش میں ہیں، جن کی مجموعی مالیت تقریباً ایک ہزار ارب یورو بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
کیوری نے کہا کہ جائزوں پر تکیہ کرنا بھی بالکل ویسا ہے، ’جیسا بندر کے سامنے آئینہ‘ جیسے خطرات کا ماخذ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے کی بنیاد وہ تجربات ہیں، جن میں کسی جانور کے سامنے آئینہ رکھ کہ یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا وہ جانور آئینہ میں خود ہی کو دیکھ رہا ہے یا اسے لگ رہا ہے کہ اس میں کوئی اور جانور در آیا ہے۔
کیوری نے پیرس میں اپنے بیان میں کہا، ’’بالکل ویسے ہی جیسے دیگر احباب سوشل میڈیا پر پھیلتی جعلی خبروں پر پریشان ہیں ویسے ہی جعلی یا غیرمعیاری ڈیٹا، بہتر اعداد و شمار کی جگہ لے رہا ہے۔‘‘
اس برس دنیا کے پسندیدہ ترین ممالک یہ رہے
اس سال جرمنی دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ سن 2016 کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں امریکا پہلے نمبر پر جب کہ جرمنی دوسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Y.Tylle
1۔ جرمنی
جرمنی نے اس برس امریکا سے پسندیدہ ترین ملک ہونے کی پوزیشن چھین لی ہے۔ جن چھ کیٹیگریز کو پیش نظر رکھ کر یہ انڈکس تیار کیا گیا، ان میں سے پانچ میں جرمنی کی کارکردگی نمایاں تھی۔ سیاحت کے شعبے میں جرمنی اب بھی دسویں نمبر پر ہے۔ مصر، روس، چین اور اٹلی کے عوام میں جرمنی کے پسند کیے جانے میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Schlesinger
2۔ فرانس
پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں دوسرے نمبر پر جرمنی کا ہمسایہ ملک فرانس رہا۔ نئے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے انتخاب نے فرانس کو دوسری پوزیشن پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافت کے حوالے سے فرانس دنیا بھر میں پہلے جب کہ سیاحت میں دوسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Fotolia/ThorstenSchmitt
3۔ برطانیہ
بریگزٹ کے عوامی فیصلے کے بعد برطانیہ پسندیدہ ترین ممالک کی اس عالمی درجہ بندی میں پچھے چلا گیا تھا تاہم اس برس کے جائزے کے مطابق دنیا بھر میں بریگزٹ کی حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ برآمدات، سیاحت، ثقافت اور مہاجرت کے بارے میں پالیسیوں کے حوالے سے برطانیہ پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے اور مجموعی طور پر اس فہرست میں تیسرے نمبر پر۔
تصویر: picture-alliance/Prisma/C. Bowman
4۔ کینیڈا (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
حکومت، عوام، مہاجرت سے متعلق پالیسیوں اور سرمایہ کاری میں بہتر کارکردگی کے باعث اس برس کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں کینیڈا چوتھی پوزیشن پر رہا۔ مجموعی طور پر کینیڈا کا اسکور گزشتہ برس سے زیادہ مختلف نہیں تھا تاہم امریکا کی رینکنگ کم ہونے کا بھی کینیڈا کو فائدہ پہنچا۔
تصویر: picture alliance/All Canada Photos
4۔ جاپان (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
سن 2017 کے پسندیدہ ترین ممالک کے اس انڈکس میں جاپان کی کارکردگی گزشتہ برسوں کی نسبت بہت بہتر رہی اور وہ مشترکہ طور پر کینیڈا کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ جاپان کی برآمدات کے شعبے میں کارکردگی اس برس بھی اچھی رہی لیکن اس کے علاوہ جاپان کی حکومت، ثقافت اور مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو بھی عالمی طور پر سراہا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nogi
6۔ امریکا
جہاں جاپان اس فہرست میں تیزی سے اوپر آیا، وہیں امریکا کی کارکردگی مایوس کن رہی اور وہ اپنی مسلسل پہلی پوزیشن سے نیچے آتے ہوئے اس برس عالمی سطح پر دنیا کا چھٹا پسندیدہ ترین ملک قرار پایا۔ اس مایوس کن کارکردگی کا ذمہ دار ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کو قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کے شعبے میں امریکا دنیا میں تئیسویں نمبر پر آ چکا ہے۔ برآمدات کے حوالے سے تاہم امریکا کی دوسری پوزیشن برقرار رہی۔
تصویر: Skidmore, Owings & Merrill
پہلے دس ممالک
ان چھ ممالک کے علاوہ اٹلی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا اور سویڈن پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں بالترتیب ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پر رہے۔
7 تصاویر1 | 7
ان کا مزید کہنا تھا، ’’معاشی عناصر کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار غیرحقیقی ہو سکتے ہیں اور مالیاتی منڈیوں میں پریشانی اور بدحواسی کا باعث بن سکتے ہیں اور ظاہر ہے اس سے مالیاتی اور اقتصادی استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔‘‘
کئی دہائیوں نے بدترین اقتصادی بحران کے اثرات سے باہر نکلنے والے یورپی مرکزی بینک کا انحصار غیر روایاتی اور اب تک ٹھیک انداز سے ناسمجھے جانے والے معاشی اشاروں پر ہے، جن سے اقتصادی نمو، ملازمتوں کے مواقع میں اضافے اور بڑھتی افراط زر کا جائزہ لیا جا سکے۔