امریکا میں چڑیا گھر کے حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ ریچھ نے ماضی میں جنسی ملاپ کے لیے اس طرح کا جارحانہ رویہ کبھی نہیں اپنا یا تھا۔
اشتہار
امریکی ریاست مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ کے چڑیا گھر کے حکام نے منگل کے روز بتایا کہ ایک نر قطبی ریچھ نے مادہ ریچھ کے ساتھ جفتی کرنے کی کوشش میں اسے جان سے مار دیا۔
چڑیا گھر میں حیوانات کی رویے اور سلوک پر نظر رکھنے والے سائنس دان چیف لائف سائنسز افسر اسکاٹ کارٹر نے ایک مقامی ٹی وی 'ڈبلیو ڈی آئی وی' سے بات چیت میں بتایا کہ نوکا نامی ریچھ بیس سالہ انانا کے ساتھ جفتی کی کوشش کر رہا تھا اور اس جد و جہد میں انانا کی موت ہوگئی۔
ان کا کہنا تھا، ''جب ریچھ یا اس جیسے دیگر بڑے گوشت خور جانور جنسی ملاپ کرتے ہیں، تو فطری لحا ظ سے اسے بعض اوقات جارحانہ ٹکراؤ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں عموماً نر جانور کا مادہ کو جسمانی طور پر قابو میں کرنا شامل ہوتا ہے اور اس کے لیے عام طور پر نر کو پیچھے کی جانب سے مادہ کی گردن پکڑنی پڑتی ہے۔''
اچانک المناک واقعہ ہوا
چڑیا گھر کے ملازمین کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں مادہ ریچھ کی المناک موت سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ برس نوکا اور انانا دونوں کسی پریشانی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم گھومتے پھرتے تھے۔
ان جانوروں اور پودوں کو کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے
کرہ زمین پر پائے جانے والے تمام حیوانات اور نباتات اپنے اپنے حوالوں سے اہم ہیں۔ تاہم بات اگر ہمارے کرہٴ ارض کی پاسداری کی ہو تو ان میں سے کچھ دوسروں سے زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Alex Wild/University of Texas at Austin
شہد کی مکھیاں
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ شہد کی مکھیاں کتنی ضروری ہیں۔ رائل جیوگرافیکل سوسائٹی نے تو شہد کی مکھیوں کو کرہٴ ارض کا اہم ترین جاندار قرار دیا ہے۔ پودوں کی کئی انواع کی زندگی اور نظام فطرت کو تندرست رکھنے کے لیے یہ شہد کی مکھیاں بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہم جو اجناس کھاتے ہیں اس کا لگ بھگ ستر فیصد بھی انہی شہد کی مکھیوں کے مرہون منت ہے۔
تصویر: Alex Wild/University of Texas at Austin
چیونٹیاں
ہم شاید کبھی کبھار انہیں ایک آفت سمجھتے ہیں لیکن چونٹیاں ایک ایسا کیڑا ہیں، جسے کم تر نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ انٹاکارٹیکا یا قطب جنوبی کے علاوہ تمام براعظموں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے مختلف کام ہیں، مٹی میں غذائیت کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی یا گردش، بیجوں کو پھیلانا اور دیگر کیڑے مکوڑوں کو کھانا۔ ماہرین آج کل چونٹیوں کی بستیوں کے ماحولیاتی تبدیلیوں پر پڑنے والے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
تصویر: CC BY-SA 2.0/Geoff Gallice
فنگی یا پھپھوندی
نہ یہ پودا ہے اور نہ ہی جانور، نہ جرثومہ یا اور نہ پروٹوزوا یعنی طفیلیہ۔ پھپھوندی یا فنگی کو کھبی کبھار زمین کی پانچویں بادشاہت کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے بغیر ہم شاید زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ یہ پانی، مٹی اور ہوا سمیت ہر جگہ موجود ہے۔ بنیادی طور پر دنیا کے غذائی اجزاء کو دوبارہ سے قابل استعمال بناتی یا ری سائیکل کرتی ہے۔ یہ پارا اور پولی یوریتھین جیسی مضر صحت دھاتوں کو بھی جذب کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
سمندری کائی
زمین پر حیات کے لیے اس مائیکرو آرگینزم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سمندری کائی زمین کی دو تہائی آکسیجن پیدا کرتی ہے اور اس کے بغیر فضا میں موجود آکسیجن کی مقدار بہت ہی کم ہو جائے گی، جس سے ماحول انتہائی خراب ہو جائے گا۔ یہ آبی ماحولیاتی نظام میں خوراک کا ایک بنیادی ذریعہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Degginger
چمگادڑیں
کیلے، بیوباب کے درختوں اور ٹکیلا میں کیا چیز مشترک ہے؟ یہ سب پولینیشن یا عمل تولید کے لیے چمگادڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں چمگادڑوں کی مختلف اقسام نظام فطرت میں کچھ خاص قسم کی فصلوں کی افزائش کو یقینی بناتی ہیں۔ چمگادڑوں کی صحت مند آبادی سے لاکھوں ڈالر کی کیڑے مار ادویات کو بچایا جا سکتا ہے اور یہ ایک پائیدار ماحولیاتی نظام کے اہم علامت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Weber
کیچوے
کیچوے زمین کے حیاتیاتی نظام کے لیے اتنے اہم ہیں کہ انہیں بعض مرتبہ ’ایکو سسٹم انجینئر‘سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ چھوٹا سا رینگنے والا کیڑا زمین کو زرخیز بنانے اور نامیاتی مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنانے یا ری سائیکل کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ کئی ماحولیاتی نظاموں کے لیے ناگزیر اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود متعدد ایسی نوع ہیں، زمین میں تیزابیت بڑھنے کی وجہ سے جن کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/J. Fieber
بندر
حیاتیاتی طور پر انسانوں سے قریب ترین بندر ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کے لیے یہ جانور بہت اہم ہے۔ یہ بارانی جنگلات میں ایک باغبان کے طور پر بیج پھیلانے اور نئے پودوں کے لیے جگہ بنانے کا بھی کام کرتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ جنگل موجود رہیں، جہاں پر بندر کی نسل پائی جاتی ہے تو ہمیں اس جانور کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔
تصویر: DW
کورال یا مونگا
انہیں اکثر سمندری کے استوائی جنگلات بھی کہا جاتا ہے۔ محققین نے اندازہ لگایا ہے کہ کورال ریف یا مونگے کی چٹانیں آبی حیات کے ایک تہائی حصے کا گھر ہیں اور یہ زمین کا بہترین ایکوسسٹم ہیں۔ اگر مونگے کی چٹانیں ختم ہو گئیں تو اس کے ساتھ سمندری نوع کی بہت سی اقسام بھی ناپید ہو جائیں گی۔
تصویر: picture-alliance/AAP/James Cook University
8 تصاویر1 | 8
کچھ وقت کے لیے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھا گیا تھا تاہم گزشتہ ہفتے کم ہوتے ایسے جانوروں کی تعداد کو بڑھانے کے مقصد سے انہیں پھر سے ایک دوسرے سے ملا دیا گیا تھا تاکہ اس نسل کی مزید افزائش ہو سکے۔
کارٹر نے بتایا کہ نوکا اس چڑیا گھر میں سن 2011 سے ہی رہ رہا ہے اور اس دوران اس کی متعدد بار دیگر مادہ ریچھوں کے ساتھ جنسی ملاپ ہوتی رہی تاہم کبھی بھی اس طرح کا جارحانہ رویہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ حال ہی میں نوکا کے ایک دیگر مادہ ریچھ سوکا سے دو جڑواں بچے بھی پیدا
ہوئے تھے۔
ڈیٹرائٹ کے اس چڑیا گھر میں اس سے پہلے سن 1988 میں ایک جانور کا دوسرے جانور کو ہلاک کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا اور اس واقعے میں بھی قطبی ریچھ نے ہی دوسرے کی جان لی تھی۔
انکیتا مکھو اپادھیائے/ ص ز/ ج ا
جانوروں کی سننے کی غیرمعمولی صلاحتیں
ارتقا کے سفر میں انسانوں نے اپنی سماعت کی حسیات کھو دیں۔ ہم ہاتھیوں کی طرح نچلے تعدد کی آواز نہیں سن سکتے اور چمگادڑوں کی طرح کی اونچی فریکوئنسی کی سماعت سے عاری ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی سماعت کو بہتر بنانا ضرور سیکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
خرگوش اور کانوں کا گھماؤ
خرگوش اپنے کانوں کو 270 درجے تک گھما کر سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کانوں کی حرکت اسے شکار بننے سے بچاتی ہے، مگر خرگوش کے کان رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کھڑے کان بتاتے ہیں کہ وہ توجہ سے سن رہے ہیں اور جب ایک کان کھڑا ہو اور ایک بیٹھا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ خرگوش توجہ دیے بغیر سن رہا ہے۔ دونوں کان پشت پر جڑی حالت میں گرے ہوں، تو سکون کی علامت ہے۔ اسی حالت میں علیحدہ کان خوف کا اشارہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
بلی اور کتا نہایت متوجہ ہیں
کتے انسان سے زیادہ بلند تعدد کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کا کتا اس وقت بھی ردعمل دکھا سکتا ہے، جب آپ کو وہاں کچھ نظر نہ آئے۔ کتے اپنے مالک اور اجنبیوں کے قدموں کی چاپ میں فرق تک کر سکتے ہیں۔ بلیاں سماعت میں اس سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ کتوں کے پاس کانوں کے 18 پٹھے ہوتے ہیں جب کہ بلیوں میں یہ تعداد 30 ہے۔ بلیاں اپنے کانوں کو 180 درجے گھما بھی سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Faber
چمگادڑوں کا سننے کے لیے الٹراسانک موجوں کا استعمال
چمگادڑ گمک کے ذریعے رات کے دوران پرواز کا راستہ طے کرتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے الٹراسونک یا بالائے صوت موجیں خارج کرتی ہیں، جو پلٹ کر ان تک آتی ہیں۔ اس ذریعے سے چمگادڑ آواز کی موجوں سے کسی شے کے حجم اور مقام کا تعین کرتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں بھی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ چمگادڑوں کے پاس کانوں کے 20 پٹھے ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ گمک کو سننے کے لیے اپنے کانوں کی جہت تبدیل کر لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
عالم حیوانات کا بہترین سامع مگر کان نہیں ہیں
عالم حیوانات میں سب سے بہترین سماعت ویکس موتھ ہے، جسے ارتقا نے چمگادڑوں سے بچنا سکھا دیا ہے۔ ان کے کان نہیں ہیں، مگر ان کی سننے کی صلاحیت انتہائی حساس ہے۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں ایک سو پچاس گنا بہتر سن سکتے ہیں جب کہ چمگادڑوں کے مقابلے میں 100 ہرٹز زیادہ تعدد کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
بھنورے، جھینگر اور کیڑے اپنے شکاریوں کی جانچ کے لیے الٹراسونک موجوں کو سماعت کرتے ہیں۔ شکاریوں سے فاصلہ بنانے کے لیے یہ آڑا ترچھا یا دائروں میں اڑنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں۔ بعض جھینگر اور بھنورے مخصوص آواز پیدا کر کے اپنے شکاری کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Schultz
وہیل، چلتی پھرتی آبدوزیں
آب دوزوں کے سفر کے لیے وہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جو چمگادڑ یا وہیل مچھلیاں گھپ اندھیرے میں سفر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اندھیرے میں وہیل مچھلیاں آواز کی موجیں پیدا کر کے اور گمک سن کے اپنی خوراک بھی تلاش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیاں آواز کے ذریعے اپنے آس پاس کے ماحول کا سہہ جہتی خاکہ جان لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Poelzer
ڈولفن جبڑوں سے سنتی ہیں
ڈولفن کے کان ہوتے ہیں، مگر وہ سمندر میں سفر کے لیے چمگادڑوں کی طرز کا نظام استعمال کرتی ہیں۔ ان کی جبیں سے صوتی لہریں نکلتی ہیں جب کہ پلٹ کر آنے والی ان لہروں کو ڈولفن کے دانت اور جبڑے وصول کرتے ہیں۔ سننے کے لیے کبھی کبھی کان درکار نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Peolzer
ہاتھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ محسوس کر سکتے ہیں
اپنے بڑے بڑے کانوں کے ذریعے ہاتھی بارش سے قبل جمع ہونے والے بادلوں کی آواز تک محسوس کر لیتے ہیں۔ ہاتھی انفرا صوتی موجوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پیروں کی حرکت کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والی ارتعاش تک کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Reichelt
الو جیسے فطرت کا نگران کیمرہ
الوؤں کے پاس فقط رات میں دیکھنے یا اپنے سر کو تین سو ساٹھ درجے گھمانے ہی کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ان کی سماعت بھی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ان کے کان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اڑتے ہوئے یہ ایک کان سے اوپر سے آنے والے صوتی موجیں محسوس کر سکتے ہیں اور ایک کان سے نیچے سے آتی آوازیں۔ اس پر ان کی رات میں دیکھ لینے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ان کا شکار بچ نہیں سکتا۔
تصویر: DW
نابینا افراد چمگادڑوں کی طرح سننے کی مشق کر سکتے ہیں
بعض نابینا افراد گمک کو محسوس کر کے اپنے ماحول کو جانچ سکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے منہ سے آواز نکال کر اس کی بازگشت سن لیتے ہیں جب کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط گمک سن کر اپنے ماحول کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔