جلال آباد جیل پر حملہ: اکیس افراد ہلاک اور متعدد قیدی فرار
3 اگست 2020
افغان حکام کے مطابق صوبہ ننگر ہار میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے ایک جیل پر حملہ کردیا، جس کی وجہ سے اکیس افراد ہلاک ہو گئے۔ پیر کی علی الصبح کیے گئے اس حملے کے نتیجے میں بیالیس قیدی زخمی جبکہ متعدد فرار بھی ہو گئے۔
اشتہار
افغان صوبے ننگر ہار کے حکومتی ترجمان عطااللہ خوگانی نے بتایا ہے کہ انتہا پسند گروہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ نے جیل پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں جنگجوؤں اور سکیورٹی اہلکاروں میں خونریز جھڑپ شروع ہو گئی۔ اس جھڑپ کے نتیجے میں مجموعی طور پر اکیس افراد مارے گئے۔ خوگانی کے مطابق اس تشدد میں بیالیس قیدی زخمی بھی ہو گئے۔
صوبائی محکمہ صحت کے ترجمان زاہد عدیل نے کہا ہے کہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ شروع میں کار خود کش حملوں کی مدد سے جلال آباد کی اس جیل کے مرکزی گیٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے جیل میں داخل ہو کر سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی۔
صوبہ خراسان میں فعال 'اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ ایک مقامی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس حملے کے محرکات کا ابھی تک علم نہیں ہو سکا ہے۔ اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ایک حکومتی ترجمان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس کارروائی کے دوران متعدد قیدی فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو گئے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
جلال آباد کی اس جیل میں پندرہ سو قیدی موجود تھے۔ ان میں سے سینکڑوں قیدیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے مقامی انتہا پسند گروہ کے ممبر تھے۔ اس حملے سے ایک روز قبل ہی افغان خفیہ ایجنسیوں نے کہا تھا کہ افغانستان جلال آباد کے نواح میں ایک خصوصی آپریشن کے نتیجے میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک اہم کمانڈر مارا گیا تھا۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ جلال آباد کی جیل پر ہوئے حملے میں ان کا کوئی رکن شریک نہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس خونریز کارروائی کے بارے میں نہیں جانتے۔ عید کے موقع پر طالبان اور حکومت کے مابین تین روزہ سیز فائر جاری ہے اور اس دوران افغانستان میں طالبان کی طرف سے کسی بڑے حملے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
طالبان باغیوں نے مشرقی صوبے لوگر میں اس خود کش حملے میں ملوث ہونے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو جمعرات کو کیا گیا تھا۔ اس حملے میں کم ازکم نو افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہوئے تھے۔ افغانستان میں حالیہ عرصے کے دوران ایسے حملوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے، جن کی ذمہ داری 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو قبول کر چکے ہیں۔