افغان طالبان کے حلیف جہادی گروپ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے انتقال کا اعلان کیا گیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
اشتہار
افغان طالبان کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ اُن کے حلیف جہادی گروپ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد انتفال کر گئے ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ افغانستان میں انتقال کر گئے ہیں۔
تقریباً اسی سالہ مولوی جلال الدین حقانی گزشتہ دس برسوں سے فالج کی وجہ سے صاحب فراش تھے۔ طالبان نے حقانی کو ایک مثالی جنگجو اور معروف مذہبی اسکالر بھی قرار دیا۔ امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو سن 2012 میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
جلال الدین حقانی کے حوالے سے کئی برسوں سے کوئی بھی خبر سامنے نہیں آئی تھی۔ سن 2015 میں بھی اُن کے مارے جانے کی خبریں عام ہوئی تھیں لیکن بعد میں ایسی اطلاعات کی تردید اُن کے اہل خانہ کی جانب سے سامنے آئی تھی۔ بظاہر اس وقت اس دہشت گرد نیٹ ورک کی عملی قیادت جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کی ہی ایک شاخ ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی فعال قیادت پاکستان میں مقیم ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس الزام کی تواتر سے تردید کی جاتی ہے۔
جلال الدین حقانی نے اپنے اس جہادی نیٹ ورک کو سابقہ سوویت یونین کی فوج کشی کے بعد سن 1970 کی دہائی میں قائم کیا تھا۔ اس گروپ نے روسی افواج کے خلاف گوریلا حملوں کی وجہ سے شہرت حاصل کی تھی اور یہی حملے اس کی بنیادی پہچان تھی۔ اس گروپ کی انہی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔
امریکی کانگریس کے رکن چارلی ولسن کی دعوت پر حقانی نے امریکا کا کا دورہ بھی کیا تھا۔ روسی فوج کے انخلا کے بعد حقانی نے طالبان کی حمایت پر اکتفا کیا۔ انہوں نے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن سے بھی گہرے تعلقات استوار کیے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ جلال الدین حقانی کی رحلت کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور فوج کے سربراہ جنرل ڈنفورڈ پانچ ستمبر کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اسی دوران امریکی وزارت دفاع نے امریکی پالیسی کی مکمل طور پر حمایت نہ کرنے پر پاکستان کی مزید تین سو ملین ڈالر کی امداد روکنے کا اعلان تین ستمبر کو کیا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔