جلسے کے دوران حملہ، جاپانی وزیر اعظم بروقت بچا لیے گئے
15 اپریل 2023
جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا پر واکایاما ضلع میں ایک تقریب کے دوران ہفتہ پندرہ اپریل کے دن ایک مبینہ اسموک بم سے حملہ کیا گیا، تاہم وہ محفوظ رہے اور انہیں وہاں سے بحفاظت نکال لیا اور ملزم کو فوراﹰ ہی گرفتار کر لیا گیا۔
اشتہار
ٹوکیو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی میڈیا نے بتایا کہ جاپانی وزیر اعظم پر یہ حملہ مغربی جاپان میں کھلی فضا میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا گیا۔ ان پر پھینکی جانے والی شے دھواں خارج کرنے والا ایک مبینہ بم تھا، جسے اپنی طرف آتا دیکھ کر فومیو کیشیدا نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو نشانہ بننے سے بچا لیا۔
فومیو کیشیدا پر یہ حملہ جنوب مغربی جاپانی شہر اوساکا سے تقریباﹰ 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع واکایاما کے ضلع میں ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی ایک بندرگاہ پر جلسے کے دوران کیا گیا۔
کیشیدا نے اپنی مہم جاری رکھی
جاپانی پبلک براڈکاسٹر این ایچ کے نے بتایا کہ اس موقع پر ایک دھماکا بھی ہوا اور موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے اسموک بم پھینکنے والے مشتبہ ملزم کو فوراﹰ ہی گرفتار کر لیا۔ اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
این ایچ کے کی طرف سے نشر کردہ ایک ویڈیو کے مطابق اس واقعے کے بعد وزیر اعظم اپنی سیاسی مہم کے دوران خطاب کے لیے جب ایک دوسری جگہ پہنچے، تو وہاں انہوں نے کہا، ''میری گزشتہ تقریر کے مقام پر ہونے والے دھماکے کی آواز اور میری طرف پھینکی گئی شے کے حوالے سے پولیس تفتیش کر رہی ہے۔‘‘
ساتھ ہی کیشیدا نے کہا، ''میں معذرت خواہ ہوں کہ میری وجہ سے بہت سے لوگ تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن ہم اپنے ملک میں ایک نئے اور بہت اہم انتخابی عمل کے عین وسط میں ہیں اور ہم سب کو مل کر یہ عمل جاری رکھنا ہے۔‘‘
اشتہار
شینزو آبے کا قتل
جاپانی ضلع واکایاما میں پیش آنے والے آج کے واقعے سے فوری طور پر اس واقعے کی یاد بھی تازہ ہو گئی، جس میں پارلیمانی انتخابات سے پہلے کی سیاسی مہم کے وقت ایسے ہی ایک جلسے سے خطاب کے دوران سابق وزیر اعظم شینزو آبے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
آبے جدید جاپان کے سب سے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم تھے اور ان پر حملہ گزشتہ برس جولائی میں گھر میں بنائی گئی ایک گن سے کیا گیا تھا۔ اس حملے میں آبے گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے اور بعد ازاں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
شینزو آبے کی موت سے پورا جاپان سکتے میں آ گیا تھا کیونکہ وہاں آتشیں ہتھیاروں سے کیے جانے والے مہلک جرائم شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں اور آبے پر حملے کی صورت میں تو ملک کے ایک سابق وزیر اعظم کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
رواں صدی کے دوران قتل ہونے والی اہم شخصیات
سابق جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے جمعے کے روز ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں دم توڑ گئے۔ اہم شخصیات کے قتل کے واقعات تو بہت ہیں لیکن دیکھیے اس پکچر گیلری میں کہ اکیسویں صدی میں کون کون سی انتہائی اہم شخصیات کو قتل کیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
شینزو آبے، سابق جاپانی وزیر اعظم
سابق جاپانی وزیر اعظم کو آٹھ جولائی سن 2022 کو مغربی جاپانی شہر نارا میں اس وقت گولی مار دی گئی، جب وہ ایک انتخابی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ انہیں زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
تصویر: Kyodo/picture alliance
ڈیوڈ امیس، برطانوی رکن پارلیمان
برطانوی قدامت پسند پارٹی کے رکن پارلیمان ڈیوڈ امیس پندرہ اکتوبر سن 2021 کو ایسیکس کے علاقے کے ایک چرچ میں اپنے حلقے کے لوگوں سے مل رہے تھے کہ ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ ان پر حملہ کرنے والا دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے ہمدرری رکھتا تھا۔
ہیٹی کے صدر جووینیل موئز کو سات جولائی 2021 کو قتل کیا گیا تھا۔ پورٹ او پرانس میں موئز کے گھر پر کیے گئے اس حملے میں ان کی اہلیہ بھی زخمی ہو گئی تھیں۔ پولیس نے صدر کے قتل کے شبے میں چالیس سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں اعلیٰ پولیس اہلکار اور کولمبیا کے سابق فوجی بھی شامل تھے۔
تصویر: Joseph Odelyn/AP Photo/picture alliance
ادریس دیبی، چاڈ کے صدر
ادریس دیبی بیس اپریل 2021 کو باغیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ شمالی علاقوں میں باغیوں کے خلاف لڑنے گئے تھے۔ قتل سے کچھ روز قبل ہی وہ ملکی صدارتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے تھے۔
تصویر: Renaud Masbeye Boybeye/AFP/Getty Images
کم جونگ نم، شمالی کوریائی رہنما کے سوتیلے بھائی
تیرہ فروری سن 2017 کو کوالالمپور کے ہوائی اڈے پر دو خواتین نے کم جونگ نم کے چہرے پر خطرناک زہریلا کیمیائی مادہ پھینک دیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے بتایا کہ کم جونگ نم کو اعصاب کو متاثر کرنے والے ایک کیمیکل وی ایکس سے ہلاک کیا گیا۔ کم جونگ ان اپنے اس سوتیلے بھائی کو اپنے اقتدار کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھتے تھے۔ نم مبینہ طور پر امریکی خفیہ اداروں سے رابطے میں تھے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
آندرے کارلوف، روسی سفیر
ترک دارالحکومت انقرہ میں تعینات روسی سفیر آندرے کارلوف کو انیس دسمبر سن 2016 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ انہیں ہلاک کرنے والا ترک پولیس کا ایک اہلکار تھا، جس نے فائرنگ کے وقت چلا کر کہا تھا کہ شام پر حملے کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/S. Ilnitsky
جو کوکس، برطانوی رکن پارلیمان
برطانوی رکن پارلیمان جو کوکس کو سولہ جون 2016 کو انتہائی دائیں بازو کے ایک شدت پسند نے ہلاک کیا تھا۔ کوکس برسٹل کے ایک گاؤں میں موجود تھیں، جب حملہ آور نے پہلے فائرنگ کی اور پھر چاقو سے حملہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/PA Wire/Y. Mok
سبین محمود، انسانی حقوق کی کارکن
پاکستان میں سبین محمود کو چوبیس اپریل سن 2015 کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کراچی کی رہائشی سبین انسانی حقوق کی ایک سرگرم اور فعال کارکن تھیں۔ پولیس نے اس قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا تھا۔
تصویر: Twitter
شکیری بلعید، تیونس کے اپوزیشن لیڈر
چھ فروری سن 2013 کو تیونس کے بائیں بازو کے معروف سیاستدان کو ان کے گھر باہر ہی گولیاں ماری گئی تھیں، جس کے نتیجے میں یہ اپوزیشن لیڈر مارے گئے تھے۔ چھ ماہ قبل بائیں بازو کے ایک اور لیڈر محمد براہیمی کو بھی اسی طرح مارا گیا تھا۔ قتل کے ان دونوں واقعات میں کسی کو بھی سزا نہ ہوئی۔
تصویر: picture alliance / abaca
کرس سٹونسن، امریکی سفیر
گیارہ ستمبر سن 2012 کو لیبیا کے بندگارہی شہر بن غازی میں واقع یو ایس کمپاؤنڈ میں جنگجوؤں نے حملہ کرتے ہوئے امریکی سفیر کرس سٹونسن اور تین دیگر امریکیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: dapd
سلمان تاثیر، پاکستانی سیاستدان
پاکستانی صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو چار جنوری سن 2011 کو ان کے اپنے ہی ایک گارڈ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ میڈٰیا ٹائیکون سلمان تاثیر ملک میں توہین رسالت کے قوانین میں اصلاحات کے حق میں تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
کرنل معمر قذافی، لیبیا کے آمر
لیبیا کے باغیوں نے بیس اکتوبر 2011 کو کرنل معمر قذافی کو بہیمانہ طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔ قبل ازیں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں مقامی اپوزیشن گروپوں کو معاونت فراہم کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/R.Drew
خواؤ برینادرو ویئرا، گنی بساؤ کے صدر
گنی بساؤ کے صدر خواؤ برینادرو ویئرا کو ان کے محل میں انہی کے ایک گارڈ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس قتل کی واردات سے کچھ دیر قبل ہی اس مغربی افریقی ملک میں ان کے حریف کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Lusa De Almeida/dpa/picture-alliance
بے نظیر بھٹو، پاکستان کی سابق وزیر اعظم
بے نظیر بھٹو کو ستائیس دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ لیاقت باغ میں ایک جلسے کے اختتام پر جب وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر واپس جا رہی تھیں تو انہیں پہلے گولی ماری گئی تھی جبکہ بعد ازاں ایک خود کش بم دھماکہ بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
رفیق الحریری، لبنان کے وزیر اعظم
چودہ فروری سن 2005 کو بیروت میں وزیر اعظم رفیق الحریری پر خود کش حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ ٹرک کے ذریعے کیے گئے اس حملے میں حریری کے ساتھ اکیس دیگر افراد بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں دو سو چھبیس افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hamzeh
زوران جنجچ، سربیا کے وزیر اعظم
بارہ مارچ سن 2003 کو سربیا کے وزیر اعظم زوران جنجچ کو دارالحکومت بلغراد میں حکومتی صدر دفاتر کے باہر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کیس میں کئی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقدمے بھی چلے لیکن جنجچ کے قتل کا معمہ حل نہ ہو سکا۔
تصویر: AP
پم فارٹیئن، ڈچ سیاستدان
ڈچ پاپولسٹ سیاستدان پم فارٹیئن کو چھ مارچ سن 2002 کو نیدرلینڈز کے ایک شمالی شہر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ قتل کا یہ واقعہ اس سال ہونے والے پارلیمانی الیکشن سے ایک دن قبل رونما ہوا تھا۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے کارکن پم اس الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بریندرا، نیپال کے بادشاہ
نیپال کے بادشاہ بریندرا کو یکم جون سن 2001 کو ان کے اپنے ہی بیٹے نے قتل کر دیا تھا۔ ولی عہد دیپندرا نے شاہی محل میں اپنے گھر والوں کے سامنے ہی فائر کر کے اپنے والد کی جان لے لی تھی۔ فائرنگ کے اس واقعے میں ملکہ ایشوریا اور چھ دیگر افراد بھی مارے گئے تھے۔
تصویر: AP
لاراں کابیلا، کانگو کے صدر
کانگو کے صدر لاراں کابیلا کو ان کے اپنے ہی ایک گارڈ نے صدارتی محل میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ چند ہی لمحے بعد ایک دوسرے سکیورٹی گارڈ نے حملہ آور کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP/D. Guttenfelder
19 تصاویر1 | 19
اسی ماہ ہونے والے ضمنی پارلیمانی انتخابات
جاپان میں ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں کی متعدد نشستوں کے لیے رواں ماہ کی 23 تاریخ کو ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم فومیو کیشیدا انہی انتخابات کے سلسلے میں کئی انتخابی حلقوں میں سیاسی جلسوں سے خطابات کر رہے ہیں۔
جاپانی کابینہ کے چیف سیکرٹری ہیروکازو ماتسونو نے ملکی وزیر اعظم پر آج کیے جانے والے حملے کے بعد کہا کہ پولیس کو حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دینے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ سات ممالک کے گروپ جی سیون کی جاپانی شہر ہیروشیما میں اگلے ماہ ہونے والی سربراہی کانفرنس کے حوالے سے بھی حکومت نے ہر طرح کے اور بہت سخت سکیورٹی انتظامات کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
م م / ع ت (روئٹرز، اے ایف پی)
جاپانی شہنشاہ اور ’دیوتا‘ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری
جاپانی شہنشاہ آکی ہیٹو تیس سال تک تخت پر براجمان رہنے کے بعد اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ جاپان کے نئے شہنشاہ ان کے بیٹے ناروہیٹو ہوں گے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
شاہی خاندان کی روایات میں تبدیلی
جاپانی شاہی خاندان میں آنے والی اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ آکی ہیٹو جاپان میں گزشتہ دو سو سال میں تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ مشرق بعید کی اس بادشاہت میں صدیوں پرانی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی شہنشاہ جب ایک بار تخت سنبھال لے، تو وہ عمر بھر یہ ذمے داریاں انجام دیتا رہتا ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
تخت سے دستبرداری کی تقریبات
پچاسی سالہ آکی ہیٹو تین عشرے قبل ’چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ جاپان میں تخت پر بیٹھے تھے۔ کل بدھ یکم مئی کو مذہبی اور روایتی تقریبات کے اختتام پر شہنشاہ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، جس کی تکمیل صدیوں پرانی روایات پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
سورج کی دیوی سے دعا
ان کی شہنشاہ کے طور پر تخت سے دستبرداری کی شاہی تقریبات آج منگل 30 اپریل کو شروع ہوئیں، جو دو دن جاری رہیں گی۔ آج دن کے آغاز پر یہ تقریبات آکی ہیٹو کی طرف سے شِنٹو عقیدے کے مطابق سورج کی دیوی کی ایک عبادت گاہ میں دعائیہ تقریب کے ساتھ شروع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Jiji Press
دیوتاؤں کو اطلاع دینے کی مذہبی تقریب
منگل تیس اپریل کی صبح جب شہنشاہ آکی ہیٹو روایتی جاپانی لباس پہنے ہوئے ’کاشی کودو کورو‘ کی شِنٹو عبادت گاہ گئے، تو اس کا مقصد وہاں عبادت کرتے ہوئے دیوتاؤں کو ان کی تخت سے دستبرداری کی اطلاع دینا تھا۔ یہ شِنٹو عبادت گاہ ’آماتےراسُو‘ نامی شِنٹو دیوی کے نام پر قائم کی گئی تھی، جنہیں جاپان میں شاہی خاندان کے ’براہ راست اجداد‘ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Issei Kato
تخت سے دستبرداری کے روایتی تقاضے
آج منگل کے روز پہلے شہنشاہ آکی ہیٹو شاہی محل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے، جس میں اعلیٰ ترین حکومتی نمائندوں کے علاوہ شاہی خاندان کے مرد ارکان بھی حصہ لیں گے۔ شاہی قانونی روایات کے مطابق آکی ہیٹو آج رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے تک شہنشاہ رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بدھ کو ان کے بیٹے اور ولی عہد ناروہیٹو نئے شہنشاہ کے طور پر تخت پر بیٹھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وراثت کی منتقلی
اس کے بعد ایک اور علیحدہ شاہی تقریب بھی منعقد ہو گی، جس میں نئے شہنشاہ کے طور پر ناروہیٹو کو شاہی تلوار، ہیرے جواہرات، شاہی خاندان کی مہر اور جملہ شاہی اختیارات منتقل کر دیے جائیں گے۔ جاپان میں یہ تقریب شاہی وراثت کی منتقلی کی تقریب کہلاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
آکی ہیٹو کی شخصیت
جاپان دنیا کی قدیم ترین بادشاہت ہے، جہاں آکی ہیٹو سے پہلے ان کے والد ہیروہیٹو شہنشاہ تھے۔ ہیروہیٹو دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جاپانی تخت کے مالک تھے اور ان کا جاپانی عوام ایک دیوتا جیسا احترام کرتے تھے۔ اس لیے کہ جاپان میں بادشاہ کو انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Imperial Household Agency of Japan
آکی ہیٹو کا دور حکمرانی
آکی ہیٹو اپنے والد ہیروہیٹو کے انتقال کے بعد 1989ء میں تخت پر بیٹھے تھے اور 2016ء میں انہوں نے یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا کہ وہ تخت سے دستبردار ہونا چاہتے تھے۔ انہیں ماضی میں سرطان کا مرض بھی لاحق رہا ہے اور ان کے دل کا آپریشن بھی ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Hoshiko
ایک عام جاپانی خاتون سے شادی
جاپانی شاہی خاندان میں آکی ہیٹو کی شخصیت کی خاص بات یہ رہی ہے کہ انہوں نے اس گھرانے کے کردار کو جدید بنانے کی کوشش کی۔ وہ ایسے پہلے شہنشاہ تھے، جنہوں نے ایک عام جاپانی خاتون سے شادی کی تھی۔ یہی خاتون بعد میں ’ملکہ میچی کو‘ بنیں۔
تصویر: Reuters/Kyodo
ایک عوام دوست شہنشاہ
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جاپانی عوام کے ساتھ اپنے رابطوں اور شاہی منصب پر فائز ہونے کے باوجود عام شہریوں کے لیے اپنی جذباتی قربت کا کئی بار مظاہرہ کیا، جسے بہت سراہا گیا تھا۔ اس انتہائی انسان دوست شاہی رویے کی بڑی مثالیں 2011ء میں آنے والے زلزلے اور سونامی طوفان اور اس سے قبل 1995ء میں کوبے شہر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے موقع پر بھی دیکھی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ولی عہد ناروہیٹو کون ہیں؟
آئندہ شہنشاہ ناروہیٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح جاپانی شاہی خاندان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری رکھیں گے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ماساکو اوواڈا سے شادی کر رکھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Kawada
ناروہیٹو اور بیٹی کی پیدائش
ناروہیٹو کی عمر اس وقت 59 برس ہے اور وہ ماضی میں ملکی شاہی زندگی کے چند پہلوؤں پر تنقید کرنے سے بھی نہیں گھبرائے تھے۔ ناروہیٹو کی ماساکو اوواڈا سے شادی 1993ء میں ہوئی تھی اور اس سے قبل وہ ایک کامیاب سفارت کار تھیں۔ ماساکو اوواڈا پر جاپانی عوام کی توقعات کے حوالے سے ایک بڑا دباؤ یہ بھی تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جنم دے کر ملک کو مستقبل کے لیے تخت کا ایک نیا وارث مہیا کریں، مگر ایسا ہو نہیں سکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Kyodo
تخت نشینی کے حقدار صرف مرد
ولی عہد ناروہیٹو اور شہزادی اوواڈا کی صرف ایک ہی اولاد ہے اور وہ شہزادی آئیکو ہیں، جو 2001ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن شہزادی آئیکو مستقبل میں تخت پر ملکہ کے طور پر براجمان نہیں ہو سکیں گی، کیونکہ جاپان میں تخت کا وارث صرف کوئی بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
تصویر: AP
مستقبل کے ممکنہ جانشین
ناروہیٹو کے تخت نشین ہونے کے بعد ان کے ممکنہ جانشین ان کے بھائی شہزادہ آکی شینو ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن آکی شینو کا اپنا بھی صرف ایک ہی بیٹا ہے، جس کی عمر اس وقت صرف 12 برس ہے۔ اس طرح ناروہیٹو کے بادشاہ بننے کے بعد دنیا کی اس قدیم ترین بادشاہت کے لیے آکی شینو اور ان کے اس وقت کم عمر بیٹے کے علاوہ ملکی تخت کا کوئی مرد وارث موجود ہی نہیں ہے۔