جماعت الدعوہ آزاد: کیا حکومت دوبارہ پابندی لگائے گی؟
عبدالستار، اسلام آباد
26 اکتوبر 2018
حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اب کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ اس خبر سے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
اشتہار
پاکستانی حکومت کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کو فراہم کی جانے والی معلومات کے بعد ملک میں اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا پی ٹی آئی کی حکومت جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو دوبارہ کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرے گی یا نہیں۔ واضح رہے کہ فلاحِ انسانیت فاونڈیشن کو جے یو ڈی کا فلاحی ونگ سمجھا جاتا ہے، جو کئی فلاحی پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ ان تنظیموں پر پابندی لگانے والے صدارتی آرڈیننس کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے یہ تنظیمیں اب کالعدم تنظیموں کی فہرست میں نہیں ہیں۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے ان جماعتوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت آرڈیننس کے ذریعے بھی ان جماعتوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن یہ بہتر ہوگا کہ وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے انہیں کالعدم قرار دے۔ اگر آرڈیننس کی مدت ختم نہیں ہوئی ہوتی تو یہ پارلیمنٹ سے آرڈنینس کی منظوری لے سکتے تھے لیکن کیونکہ اب آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔ انہیں نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا۔‘‘
لیکن کئی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت، جو حال ہی میں مذہبی انتہا پسندوں کے آگے دو مربتہ ہتھیار ڈال چکی ہے، ایسا نہیں کرے گی۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ چونکہ جماعت الدعوہ کے پیچھے ریاست کے طاقتور ادارے ہیں، تو پی ٹی آئی ایسا کرنے سے اجتناب کرے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کے خیال میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہیں، لہذا وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے: ’’عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا فرنٹ مین ہے اور ہماری پالیسی یہ ہے کہ ایسی دہشت گردوں تنظیموں کو قومی سیاسی دھارے میں لاکر یہ تاثر دیا جائے کہ یہ تو سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ پالیسی ہمارے سماجی ڈھانچے کو مزید تباہی سے دوچار کرے گی اور بین الاقوامی طور پر ہمیں شرمندہ کرے گی۔ جس کے منفی نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘
تاج حیدر کے خیال میں حکومت کی طرف سے ایسی تنظیموں کو کالعدم نہ قرار دینا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے: ’’آئین کی آرٹیکل اڑتیس بڑی واضح ہے کہ ایسی تنظیمیں جو لوگوں کے مذہبی یا فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کے ووٹ مانگیں، حکومت کا فرض ہے کہ وہ انہیں روکے۔ ایسی تنظیموں نے ماضی میں بھی ہمارے سماجی ڈھانچے کو تباہ کیا اور اگر اب بھی انہیں روکانہ گیا تو یہ مزید تباہی کا باعث بنیں گی۔‘‘
لیکن کئی تجزیہ نگاروں کا خیال میں کیونکہ پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور ملک کو بیرونی امداد کی سخت ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی یہ پابندی لگائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان کو بارہ بلین ڈالرز فوری طور پر چاہییں جب کہ ملکی معیشت کو چلانے کے لیے بھی دس بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ حکومت نے چھ بلین ڈالرز کا بندوبست کر لیا ہے لیکن ابھی بھی اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا، جہاں مغربی ممالک کی اجارہ داری ہے اور جن کا یہ مطالبہ ہے کہ اسلام آباد ایسی تنظیموں کے خلاف ایکشن لے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں اگر پاکستان نے ایسی تنظیموں کے خلاف اقدامات نہیں کیے تو ہمیں بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے: ’’پی ٹی آئی حکومت کی ترجیح مالیاتی مسائل کو حل کرنا ہے، جس کا مطلب بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑے گا اور وہ ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کو پیسے بھی دیں اور آپ ان جیسی تنظیموں کے خلاف اقدامات بھی نہ کریں۔ حکومت بین الاقوامی برادری کو تسلی دے گی کہ یہ عدالت کی کارروائی ہے اور کہہ گی کہ ہم اس سلسلے میں قانون سازی کریں گے۔حکومت کے پاس ان تنظیموں پر پابندی لگانے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔‘‘
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔