جماعت الدعوۃٰ کے خلاف تازہ حکومتی آپریشن
26 جنوری 2009لاہور کے نواحی علاقے مریدکے میں واقع اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر مرکز طیبہ میں پولیس چوکی قائم کر کے ایک سینئر سرکاری افسر کو اس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا ہے۔ ممبئی بم دھماکوں کے بعد اقوام متحدہ نے جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
جماعت الدعوۃٰ نے اپنے فلاحی ادارے سرکاری کنٹرول میں لئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کے داماد اور تنظیم کے سیاسی امور کے انچارج خالد بن ولید نے پیر کے روز لاہور میں ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جماعت الدعوۃٰ نے قانونی مشاورت کے لئے وکلا ء کا ایک پینل تشکیل دے دیا ہے اور بہت جلد اس فیصلے کے خلاف جماعت الدعوۃٰ عدالت سے رجوع کرے گی اور جو بھی مجاز عدالت ہو گی وہاں داد رسی کے لئے ضرور رابطہ کیا جائے گا۔
تازہ اطلاعت کے مطابق، لاہور ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان ، سیالکوٹ اور شیخو پورہ سمیت صوبہ کے کئے علاقوں میں حکومت نے جماعت الدعوۃ کے دس تعلیمی اداروں، دو بڑے ہسپتالوں اور انیس ڈسپنسریوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
مریدکے میں واقع جماعت الدعوۃ کے ہیڈ کوارٹر بتائے جانے والے مرکز طیبہ میں پولیس کی اضافی نفری تعنیات کر دی گئی ہے۔ جماعت الدعوۃ کے ایک کارکن خالد بشیر نے بتایا کہ تازہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے کافی پریشانی کا سماں ہے ۔ مرکز طیبہ میں واقع ہسپتال میں پہلے ڈھائی تین سو کے قریب مریض روزانہ آیا کرتے تھے۔ تازہ حکومتی کارروائیوں کے نتیجے میں پھیلنے والے خوف و ہراس کے نتیجے میں ابھی مریضوں میں بھی خوف پھیل گیا ہے کہ کہیں پولیس انہیں بھی پکڑ کر نہ لے جائے۔ ان کے مطابق مرکز طیبہ میں موجود تعلیمی اداروں کے بچے بھی واپس جانا شروع ہو گئے ہیں۔
اتوار کے روز ہونے والے پولیس ایکشن کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے بیس کے قریب گاڑیوں میں سوار مسلح پولیس اہلکاروں کے ساتھ مرکز طیبہ کا کنٹرول سنبھالنے کی آڑ میں کافی خوف وہراس پھیلایا ۔ جس سے لوگوں کے اندر کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ جماعت الدعوۃ کے رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلامتی کونسل نے اس تنظیم کی فلاحی سرگرمیوں پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ ان کے مطابق حکومت عالمی دباؤ کی وجہ سے غیر منصفانہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ پیر کے روز مریدکے میں جماعت الدعوۃ کی فلاحی سرگرمیوں کے حق میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔
سرکاری حکام اس حوالے سے مےڈیا کے سوالات کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون، صوبے کے چیف سیکرٹری ، ہوم سیکرٹری، لاہور کے کمشنر اور مرکز طیبہ کے نئے نگراں افسر سمیت جس متعلقہ حکومتی اہلکار سے بھی رابطہ کیا جائے، وہ اس بارے میں بتانے پر آمادہ نظر نہیں آتا ہے۔
دوسری طرف بعض غیر جانب دار مبصرین کو ان حکومتی اقدامات کی دال میں کچھ کالا نظر آ رہا ہے۔ کیا حکومت کی یہ تازہ کارروائیاں عالمی رائے عامہ کو مطمئن کر سکیں گی؟ پاکستان کی مذہبی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر سیاسی تجزیہ کار عامر وقاص کہتے ہیں کہ اگر حکومت سنجیدگی سے کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ ادارے جنہوں نے ان تنظیموں کو بنایا ہے وہ ان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کریں، ان کے مطابق ان اداروں کا کنٹرول سول انتظامیہ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جماعت الدعوۃ جیسی تنظیمیں جو پہلے کسی اور نام سے کام کرہی تھیں اور جن کا وجود افغانستان اور کشمیر کے جہاد کے نام سے عمل میں آیا تھا، ان کے مطابق حکومت کی طرف سے اٹھائے جا نے والے حالیہ اقدامات وہ اقدامات نہیں ہیں جیسے کہ بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے نزدیک اہم سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کی عدالتوں نے اپنا فیصلہ جماعت الدعوۃ کے حق میں سنا دیا تو پھر پاکستانی حکومت کا طرز عمل کیا ہو گا؟