امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیے گئے ہیں تو ریاض حکومت کو ’سخت سزا‘ دی جائے گی۔ سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی دو اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک انٹرویو کے حوالے سے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیا گیا ہے تو سعودی عرب کو سخت سزا دی جائے گی۔
ٹرمپ نے نشریاتی ادارے سی بی ایس سے گفتگو میں کہا کہ واشنگٹن حکومت اس معمے کا حل تلاش کر لے گی اور اگر اس میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو ذمہ داران کو سزا بھی دی جائے گی۔ اس سعودی صحافی کے لاپتہ ہونے کے بعد ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ انہیں دراصل ہلاک کیا جا چکا ہے۔
سعودی حکومت اور پرنس محمد بن سلمان کے کڑے ناقد جمال خاشقجی امریکا میں مقیم تھے اور وہ اپنی شادی کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں دو اکتوبر کو استنبول میں واقع ترک قونصل خانے جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ ان کی منگیتر کے مطابق خاشقجی کے قونصل خانے کے اندر جانے کے بعد وہ گیارہ گھنٹے تک باہر کھڑی انتظار کرتی رہی لیکن خاشقجی باہر نہ نکلے۔
سی بی ایس کے پروگرام ’سکسٹی منٹ‘ میں امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ کیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کا پروانہ جاری کیا تھا تو ٹرمپ نے کہا، ’’ابھی یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہم حقائق تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ امریکی صدر کا مکمل انٹرویو اتوار کے دن نشر کیا جائے گا۔ تاہم اس کے اقتباسات ہفتے کے دن جاری کر دیے گئے۔
امریکی صدر کے مطابق خاشقجی کا کیس اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ وہ ایک رپورٹر تھے۔ تاہم ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اس معاملے کی وجہ سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تناظر میں کہا کہ وہ لوگوں کی ملازمتوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف ترک ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ خاشقجی کو استبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خاشقجی کا معاملہ ترکی اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔