جمرود میں بم دھماکہ، کم از کم 35 افراد ہلاک
10 جنوری 2012![](https://static.dw.com/image/15655893_800.webp)
پشاور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سرکاری اہلکاروں کے بقول ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیے گئے اس بم دھماکے میں 60 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔
جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے نے پشاور سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یہ حملہ خیبر ایجنسی میں جمرود کے بازار میں کیا گیا۔ خیبر ایجنسی پاکستان کے ان سات قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے جہاں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ اور طالبان کے بہت سے عسکریت پسندوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
خیبر ایجنسی میں سکیورٹی کے ذمہ دار ایک مقامی اہلکار جمیل خان نے بتایا کہ یہ بم ایک پک اپ گاڑی میں چھپایا گیا تھا اور دھماکہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے کیا گیا۔
امدادی کارکنوں کے مطابق دھماکے کے کچھ دیر بعد تک جمرود کے مقامی ہسپتال میں ہلاک ہونے والوں میں سے 23 افراد کی لاشیں پہنچائی جا چکی تھیں اور 30 زخمیوں کو بھی علاج کے لیے وہاں لایا جا چکا تھا۔ اس کے علاوہ ہلاک ہونے والے چھ دیگر افراد کی لاشوں اور کئی زخمیوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ایک طبی مرکز میں پہنچایا جا چکا ہے۔
نجی فلاحی ادارے ایدھی ایمبولینس سروس کے ایک ترجمان مجاہد خان نے بتایا کہ مرنے والوں میں نیم فوجی فرنیٹیئر کور کے تین سپاہی بھی شامل ہیں اور ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ابھی تک کسی بھی مسلح گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ایک سکیورٹی اہلکار نے تاہم اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس دھماکے میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف سرگرم ذخا خیل نامی قبیلے کی ایک مقامی ملیشیا کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔ اس اہلکار نے بتایا کہ اس مقامی ملیشیا کے ارکان کو طالبان کی طرف سے مسلسل انتقامی کارروائی کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں میں بہت سے ایسے مقامی ملیشیا گروپ بھی سرگرم ہیں جو طالبان کے مخالف ہیں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں سرکاری دستوں کی مدد کرتے ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک