جموں میں ہندو یاتریوں پر حملہ درجنوں ہلاک و زخمی
10 جون 2024جموں کے حکام نے بتایا ہے کہ ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ایک بس پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس بس پر فائرنگ کی گئی تو بس ڈرائیوار کنٹرول کھو بیٹھا اور بس گہری کھائی میں جا گری۔
ایک پولیس اہلکار نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ گولیاں لگنے سے بھی ہلاک ہوئے جبکہ زیادہ تر بس کے کھائی میں گرنے کی وجہ سے مارے گئے۔ کچھ ذرائع کے مطابق اس واقعے میں دس افراد ہلاک جبکہ تینتیس زخمی ہوئے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق شیو کھوڑی مندر میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد عقیدت مند ایک بس میں سوار ہو کر ماتا ویشنو دیوی کے درشن کے لیے جا رہے تھے کہ کٹرہ میں ایک جنگلاتی علاقے میں جنگجوؤں نے اس بس پرفائرنگ شروع کردی۔
مودی کی فتح پر مظفر آباد میں کشمیریوں کا احتجاج
کیا پاکستان مخالف بیان بازی بھارت کے انتخابات کو متاثر کرے گی؟
حملہ اسی دن ہوا جب مودی نے حلف اٹھایا
جموں میں یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی نے تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ مودی کے دوسری مدت اقتدار میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر کشمیری مسلمانوں میں غم و غصہ ابھی برقرار ہے۔
پولیس نے اس حملے کی ذمہ داری مسلم جنگجوؤں پر عائد کی، جو کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف بغاوت کیے ہوئے ہیں۔ تاہم اتوار کو رونما ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
کشمیر میں باغی گروہ سن 1989 سے آزادی کی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے زیادہ تر مسلمان ان باغی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے کہ کہ پاکستان اور بھارت کے مابین منقسم کشمیر کا خطہ ایک ہو جائے۔ وہ اس علاقے کا پاکستان کے ساتھ الحاق یا پھر آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔
نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تشدد کے ایسے واقعات دراصل 'پاکستانی سپانسرڈ دہشت گردی‘ کا نتیجہ ہیں۔
ع ب / ک م (اے پی، اے ایف پی)