جموں و کشمیر میں ’لڑکیوں کی کمی‘
20 مئی 2011جموں وکشمیر میں اسقاط حمل کے ذریعے بچیوں کو دُنیا میں آنے سے روکنے کے مسئلے نے وہاں کی سیاسسی، مذہبی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ بھارت میں مارچ میں شائع ہونے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق وہاں سن 1947 سے لے کر اب تک لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی شرح کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
نئے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھارت میں چھ برس سے کم عمر کے ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 914 ہو گئی ہے۔
لڑکیوں کی پیدائش میں سب سے زیادہ کمی بھارتی زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہاں چھ سال سے کم عمر کے ایک ہزار لڑکوں کے مقابلوں میں لڑکیوں کی تعداد 859 ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 984 ہے۔ بھارت میں شادی شدہ خواتین پر اکثر لڑکے پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ وہاں لڑکوں کو کمائی کا ذریعہ جبکہ لڑکیوں کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں کئی مرتبہ والدین یہ پتہ چلانے کے بعد کہ ان کے گھر میں آئندہ پیدا ہونے والا بچہ ایک لڑکی ہو گی، حمل ضائع بھی کروا دیتے ہیں۔
اعتدال پسند علیٰحدگی پسندوں کے اتحاد کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کے مطابق یہ کشمیری مسلمانوں کے لیے شرم کی بات ہے کہ بچیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے ہوئے اسقاط حمل کروا دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے تھا کہ جموں و کشمیر میں رہنے والے ہر ایک فرد کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ایک غیر اسلامی فعل ہے۔
بھارت سے آزادی کے حامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’ناپسندیدہ اور غیر اخلاقی رجحان‘ ہے، جو اس علاقے کو پتھر کے زمانے میں لے جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’قرآن اور اسلامی روایات کے مطابق یہ ایک ناقابل معافی جرم اور قتل کے برابر ہے۔ ہم اس سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے مسلمان کہلوانے کے حقدار نہیں ہیں‘‘۔
جموں و کشمیر میں ہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے پیش نظر وہاں کے حکومتی اداروں نے غیر قانونی الٹرا ساؤنڈ اسکینرز رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
جنین کی جنس کا تعین بھارت میں غیر قانونی ہے لیکن بہت سے کلینکس ایک معمولی فیس کے بدلے یہ خدمات پیش کرتے ہیں، یہاں تک کہ اسقاط حمل میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ سہولتیں جموں و کشمیر سمیت بھارت کے دور داراز کے علاقوں میں بھی میسر ہیں۔
کشمیر میں قومی دیہی صحت کے شعبے کے سربراہ یشپال شرما کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن کے دوران تقریباﹰ 700 الٹراساؤنڈ اسکینرز پکڑے گئے ہیں لیکن اس مسئلے کا دیر پا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو بھی شامل کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں سات سو کے قریب مسلم اور ہندو رہنماؤں کو خطوط بھیجے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی