جمہوریت تو تبدیلی سے ہی پھلتی پھولتی ہے، میرکل کا پیغام
31 دسمبر 2018
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سال نو کے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جمہوریت تو تبدیلی سے ہی پھلتی پھولتی ہے اور کئی بین الاقوامی بحرانوں کے حل کا ایک راستہ یہ ہے کہ جرمنی کو اب تک کے مقابلے میں زیادہ ذمے داریاں سونپی جائیں۔
اشتہار
جرمن سربراہ حکومت نے ملکی عوام سے اپنے سال نو کے پیغام میں، جو آج اکتیس دسمبر پیر کی شام ٹیلی وژن سے نشر کیا جا رہا ہے، کہا کہ جرمنی اور جرمنوں کو اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے اور ایک مثبت سوچ کے ساتھ نئے سال 2019ء میں بھی یورپی یونین کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے رہنا ہو گا۔
2018ء ایک بہت مشکل سال
جرمن چانسلر کا سال نو کے موقع پر قوم سے کیا جانے والا یہ سالانہ خطاب یوں تو ایک روایت ہے لیکن یورپی اور بین الاقوامی سیاست میں جرمنی کے کردار اور مقام کی وجہ سے اسے ہر بار ہی داخلی اور خارجہ دونوں سطحوں پر بڑی توجہ سے سنا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں اپنے خطاب میں انگیلا میرکل نے اعتراف کیا کہ آج ختم ہونے والا سال دو ہزار اٹھارہ ایک بہت مشکل سال تھا۔ اس سے ان کی مراد جرمنی اور یورپی یونین کی سال رواں کے دوران داخلی سیاسی صورت حال بھی تھی اور بیرونی دنیا میں پائے جانے والے وہ کئی بحران بھی، جنہیں فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے۔
گزشتہ تیرہ برسوں سے وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز انگیلا میرکل نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ اس امر سے قطع نظر کہ موجودہ سال کتنا بھی غیر تسلی بخش تھا، ایک حقیقت کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کی جانا چاہیے، ’’جمہوریت تو تبدیلیوں سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔‘‘
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
ماہرین کے مطابق اس موقف سے میرکل کا ایک اشارہ اس طرف بھی تھا کہ اسی سال انہوں نے قریب سولہ برس تک اپنی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی قیادت سنبھالے رکھنے کے بعد ان ذمے داریوں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میرکل جو اس وقت اپنے حکومتی عہدے کی چوتھی مدت پورا کر رہی ہیں، کہہ چکی ہیں کہ چانسلر کے طور پر اپنی ذمے داریوں کا موجودہ عرصہ مکمل ہو جانے کے بعد وہ دوبارہ اس عہدے کے لیے امیدوار نہیں ہوں گی۔
حدود و قیود سے آگے تک تعاون
اپنے ہم وطنوں سے سماجی سطح پر زیادہ یکجہتی اور باہمی اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے انگیلا میرکل نے مزید کہا کہ مشکلات کیسی بھی ہوں، ان پر قابو اسی وقت پایا جا سکتا ہے جب دوسروں کے ساتھ حدود و قیود سے بھی آگے تک جا کر تعاون کیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئے سال دو ہزار انیس میں ماحولیاتی تبدیلیوں، ترک وطن سے متعلقہ مسائل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے امور کلیدی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
جرمنی عالمی سلامتی کونسل کا رکن
کل یکم جنوری سے شروع ہونے والے نئے سال کی ایک خاص بات یہ بھی ہو گی کہ جرمنی منگل کے دن سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ملک کے طور پر اپنی ذمے دارایاں سنبھال لے گا۔
اس بارے میں جرمن سربراہ حکومت نے کہا کہ نئے سال میں اگلے دو برسوں کے لیے عالمی سلامتی کونسل کی رکنیت کی وجہ سے جرمنی کے سیاسی قد کاٹھ میں بھی مزید اضافہ تو ہو گا لیکن ساتھ ہی برلن کے کندھوں پر پڑنے والی ذمے داریاں بھی بہت بڑھ جائیں گی۔
اس تناظر میں میرکل نے اپنی سوچ کے اظہار کے لیے ان الفاظ کا انتخاب کیا، ’’ہماری اقدار، کھلے پن، برداشت اور دوسروں کے لیے احترام کی وجہ سے، جن پر ہمارا یقین بہت پختہ ہے، ان پر عمل کرتے ہوئے ہم (سلامتی کونسل کی رکنیت کے ذریعے) ایسی تبدیلیوں کے لیے کوشاں رہیں گے، جو اچھی بھی ہوں گی اور بہتر بھی۔‘‘
م م / ا ا / ڈی پی اے، روئٹرز
سال 2018 تصاویر میں
خوشی اور غم ، نفرت اور اظہار یکجہتی۔ سال 2018ء میں تمام تر جذباتی پہلو نمایاں ہیں اور اس سال کی نمایاں تصاویر میں بھی یہ سب کچھ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ تصاویرآپ کو پریشان بھی کر سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
کچی بستی آگ کی لپیٹ میں
نیروبی کی اس کچی بستی کے رہائشیوں کے پاس صرف انتہائی ضرورت کے وقت استعمال کی جانے والی اشیاء ہی تھیں اور آگ نے وہ بھی ان سے چھین لیں۔ 28 جنوری کو کیجیجی بستی میں آتشزدگی کے نتیجے میں چار افراد ہلاک جبکہ 600 سے زائد بے گھر ہو گئے۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
سنجیدہ لمحات میں بھی تفریح
بدھ چھ فروری کو یورپی پارلیمان میں یورپ کے مستقبل پر ہونے والی بحث کے دوران یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے بیلجیم کے سیاستدان گائے فرہوفشٹڈ کے بالوں کو چھیڑنا شروع کر دیا۔ فرہوفشٹڈ اس موقع پر اخبار پڑھ رہے تھے۔ یہ تصویر ظاہر کرتی ہے کہ بریگزٹ اور بڑھتی ہوئی عوامیت پسندی کے دور میں بھی یورپی سیاستدان ہماری طرح ہی کے لوگ ہیں۔
تصویر: Reuters/V. Kessler
فحش فلموں کی اداکارہ خبروں میں
فحش فلموں کی امریکی اداکارہ اسٹیفانی کلیفورڈ عرف سٹورمی ڈینیئلز نیو یارک کی ایک عدالت میں سکیورٹی چیک اپ کے بعد اپنے جوتے پہن رہی ہیں۔ اس عدالتی معاملے کا تعلق ڈینیئلز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین جنسی روابط سے تھا۔ ڈینیئلز کو ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے انہیں اس موضوع پر کوئی بات نہ کرنے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دیے تھے۔ تاہم ڈینیئلز خاموش نہیں رہی تھیں۔
تصویر: Reuters/S. Stapleton
امریکا میں نازی علامات
یہ تصویر امریکی ریاست جارجیا کی ہے، جہاں نیشنل سوشلسٹ تحریک کے ارکان نے نازی خفیہ علامات کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر فوٹوگرافر گو ناکامورا بھی موجود تھے۔ یہ وہی سفید فام گروپ ہے، جو 2017ء شارلٹس وِل میں نکالی گئی ریلی میں بھی موجود تھا۔ شہری حقوق کی تنظیموں نے امریکا میں دائیں بازو کے شدت پسند گروپوں کے اثر و رسوخ میں اضافے کے خلاف خبردار بھی کیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Nakamura
دو شخصیات، ایک سرحد
جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان اور شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان نے غیر عسکری زون میں مصافحہ کیا۔ اس موقع پر ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف تمام تر جارحانہ کارروائیاں ختم کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ کیا یہ ایک نیا آغاز ہے؟
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
فٹ بال کا عالمی چیمپئن ملک
فرانس نے فٹ بال کی عالمی چیمپئن شپ کے فائنل میں کروشیا کو چار دو سے شکست دے دی۔ یہ تصویر فائنل میچ کے ختم ہونے کے بعد کی ہے، جس میں کھلاڑی اپنے کوچ کے ساتھ مل کر جیت کی خوشیاں منا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach
جرمنی میں شدید گرمی
یہ صرف شدید گرم موسم ہی نہیں تھا بلکہ خشک ترین بھی تھا۔ دریا اور جھیلیں خشک ہو گئے اور کسان اپنی فصلوں کی وجہ سے پریشان ہو گئے۔ یہ تصویر جرمن شہر ڈسلڈورف کی ہے، جہاں موسم گرما کے دوران دریائے رائن میں پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے بحری جہازوں کی صرف محدود آمد و رفت ہی ممکن رہ گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gerten
وردی اور نقاب
یہ تصویر آیہ کی ہے، جو کوپن ہیگن کی سڑکوں پر نقاب پہن کر گھوم پھر رہی ہیں۔ ڈنمارک میں عوامی مقامات پر چہرے پر نقاب اوڑھنا غیر قانونی ہے۔ آیہ کے اس اقدام کا مقصد کوپن ہیگن حکومت کی جانب سے نقاب پر پابندی لگائے جانے کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
آنکھوں میں آنکھیں
ایک فلسطینی شہری اور ایک اسرائیلی فوجی ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ یہ جھگڑا غرب اردن کے علاقے میں ایک فلسطینی اسکول بند کرنے کے اسرائیلی اعلان کے بعد شروع ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Torokman
سرحدیں عبور کرنا
لوئس آکوسٹا ہاتھوں میں پانچ سالہ اینجل جیزز کو اٹھا کر گوئٹے مالا اور میکسیکو کے درمیان بہنے والے ایک دریا کو عبور کر رہا ہے۔ یہ دونوں وسطی امریکی مہاجرین پر مشتمل اس قافلے کا حصہ ہیں، جو امریکا جانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ مہاجرین ہر قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Latif
جنت میں دوزخ
یہ تصویر مالیبو، کیلیفورنیا کی ہے، جسے زمین پر جنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نومبر کے اوائل میں یہ بہشت شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس آتشزدگی میں کم از کم 85 افراد ہلاک ہوئے جبکہ بڑے بڑے بنگلے اور کوٹھیاں بھی جل کر راکھ ہو گئے۔
تصویر: Reuters/E. Thayer
میرکل سی ڈی یو کی قیادت چھوڑ گئیں
’یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی،‘ یہ تھے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے اپنی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی قائد کے طور پر آخری الفاظ۔ وہ اٹھارہ سال تک اس پارٹی کی سربراہ رہنے کے بعد اس عہدے سے الگ ہو گئیں۔ ان کی جگہ اب سی ڈی یو کی سربراہ آنے گریٹ کرامپ کارن باؤر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
پرتشدد مظاہرے
نہ تو جنگ اور نہ ہی کوئی قدرتی آفت۔ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں یورپ میں حالات قدرے بہتر ہیں۔ تاہم اس کے باوجود جرمنی، فرانس اور بیلجیم کے شہری کم تنخواہوں، مہنگے کرایوں، کم ہوتی ہوئی پینشن اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ابھی حال ہی میں فرانس میں پیلی جیکٹیں پہن کر شہریوں نے حکومت مخالف مظاہرے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
ایک اور سونامی
انڈونیشیا میں آنے والی سونامی لہروں کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر چار سو سے زائد ہو گئی۔ ہنگامی امدادی مرکز کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ متاثرہ علاقوں میں کئی سو عمارات ملبے کے ڈھیر بن گئیں۔ ہفتہ بائیس دسمبر کو خلیج سنڈا میں آنے والی اس قدرتی آفت سے سماٹرا کا جنوبی اور جاوا کا مغربی حصہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ علاقے اپنے خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔