’جمہوریت مر گئی‘، پابندی کے بعد شناوترا کی پکار
23 جنوری 2015پارلیمنٹ نے چاول کی پیداوار کے حوالے سے کسانوں کی دی جانے والی سبسڈی کے تناظر میں یِنگ لَک شناوترا کے خلاف پیش کردہ مواخذے کی قرارداد کو منظور کر لیا ہے۔ قومی دستور ساز اسمبلی میں مواخذے کی قرارداد منظور کر کے خاتون سیاستدان پر پانچ سال کے لیے عملی سیاست میں شرکت کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔
اسمبلی نے سابق وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ شروع کرنے کی سفارش بھی کی، جس کے بعد حکومتی اٹارنی جنرل کے دفتر نے فوجداری کارروائی شروع کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ سابق خاتون وزیراعظم کے خلاف قوجداری مقدمے کی شنوائی سپریم کورٹ میں ہو گی اور اگر استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تو انہیں دس برس تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔
دستور ساز اسمبلی میں مواخذے کی قرارداد کی منظوری کے لیے ساٹھ فیصد اراکین کی حمایت ضروری تھی اور 220 رکنی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے قرارداد کی منظوری دی۔ دستور ساز اسمبلی میں مواخذے کے عمل کی منظوری کے لیے صرف 132 اراکین کی ضرورت تھی لیکن 190 اراکین نے یِنگ لَک شناوترا کے خلاف مواخذے کی حمایت کی اور اِس طرح خاتون سیاست دان کو پانچ برسوں کے لیے عملی سیاست سے دور کر دیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ نیشنل لیجیسلیٹِو اسمبلی کے 220 اراکین میں سے 100 اراکان سابق یا حاضر فوجی ہیں۔
جمعرات کے روز مواخذے کی پارلیمانی کارروائی کے دوران سابق وزیراعظم نے الزامات کی صحت سے انکار کرتے ہوئے اِسے سیاسی مقدمہ قرار دیا۔ اپنا دفاع کرتے ہوئے یِنگ لَک شناوترا نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اب تک کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ اپنے فیس بُک پیج پر یِنگ لَک شناوترا نے فوجی حکومت کی حمایت یافتہ پارلیمنٹ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے تحریر کیا کہ آج تھائی لینڈ میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کی بھی موت ہو گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ انہیں تباہ کرنے کا جو عمل شروع کیا گیا تھا وہ بدستور جاری ہے اور وہ اِس کا مقابلہ کریں گی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گزشتہ دس برس کی تھائی سیاست میں واضح افراتفری دکھائی دیتی ہے اور اِس دوران ینگ لَک اور اُن کے بھائی تھاکشن شناوترا کو عملی سیاست سے دور دھکیل دیا گیا ہے اور اِس عمل کے پیچھے واضح طور پر تھائی بادشاہ اور فوج کی ملی بھگت نظر آتی ہے۔ یہ اِس لیے بھی کیا گیا کیونکہ فوج اور بادشاہت کو شناوترا خاندان کی مقبول اور عوامی سیاست سے خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ ماہرین کے خیال میں تھائی سیاسی منظر پر شناوترا خاندان کو سیاست سے دور کرنے کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یِنگ لَک اپنے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ گزشتہ برس مئی میں فوج نے اُن کی حکومت کو عوامی مظاہروں کے تناظر میں ختم کر دیا تھا۔