امریکہ میں سیاسی تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے، صدر جوبائیڈن
3 نومبر 2022
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ چونکہ بعض ریپبلکن امریکی انتخابات کی سالمیت کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بوتے رہتے ہیں، اس لیے ملک میں سیاسی تشدد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے دو نومبر بدھ کے روز وسط مدتی انتخابات سے متعلق اپنی تقریر کے دوران امریکیوں سے ''سیاسی تشدد اور ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے'' کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی۔
امریکہ میں آئندہ ہفتے ہی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور انتخابی سالمیت کے دفاع کے بارے میں ان کے یہ ریمارکس اس سے عین قبل آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ''جیسا کہ آج میں یہاں کھڑا ہوں، امریکہ میں گورنری کے لیے، کانگریس کے لیے، اٹارنی جنرل کے لیے، وزیر خارجہ کے لیے، ہر سطح کے عہدوں کے لیے امیدوار میدان میں کھڑے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ ان انتخابات کے نتائج کو بھی قبول کرنے کا عہد نہیں کریں گے جس کے لیے وہ میدان میں ہیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ امریکہ میں افراتفری کا ایک راستہ ہے۔ یہ بے نظیر بات ہے۔ یہ غیر قانونی بھی ہے اور، یہ امریکی روایات کے برعکس بھی ہے۔''
وسط مدتی انتخابات سے متعلق زیادہ تر پیشین گوئیوں میں ریپبلکنز کو ایوان کا کنٹرول سنبھالنے کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے، جبکہ سینیٹ میں دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔
بائیڈن کا سیاسی تشدد پر افسوس کا اظہار
ایک ہفتے قبل امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے گھر میں دراندازی کے ایک واقعے کے بعد صدر بائیڈن کا یہ خطاب ہوا، جس میں بظاہر نینسی پیلوسی کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب حملہ آور کو سینیئر ڈیموکریٹ کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ وہ گھر میں نہیں ہیں، تو اس نے ان کے شوہر پر حملہ کر دیا۔
جو بائیڈن نے تقریر کے دوران اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''حملہ آور گھر میں یہ پوچھتے ہوئے داخل ہوا تھا کہ 'نینسی کہاں ہے؟ نینسی کہاں ہے؟' یہ وہی الفاظ تھے جن کا ہجوم نے چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل پر دھاوا بولتے وقت استعمال کیا تھا۔''
صدر نے کہا کہ 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے والے اور ووٹ میں دھاندلی کے بے بنیاد الزامات لگانے والے ریپبلکنز کی اس طرح کی بیان بازی ووٹرز اور اہلکاروں کے خلاف تشدد کو مزید ہوا دینے کے لیے کام کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''اس ملک میں سیاسی تشدد کو نظرانداز کرنے والے یا محض خاموش رہنے والے لوگوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ خاموشی تو ایک طرح کی شراکت ہے۔''
بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ بہت ممکن ہے کہ وسط مدتی انتخابات کے بعد مکمل ووٹوں کی گنتی میں اسی طرح زیادہ وقت لگ سکتا ہے، جیسا کہ نومبر 2020 میں ہوا تھا، جب مکمل نتائج کو جمع ہونے میں پانچ دن لگے تھے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی وقت رہتے ہی بذریعہ ڈاک بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈال رہے ہیں اور یہ کہ ''قانونی اور منظم طریقے سے'' ان کا حساب لگانے میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''شہریوں کے لیے صبر کرنا ضروری ہے۔''
ص ز/ ج اے (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔