پاکستانی اور بھارتی قیادت کی ملاقات غیرمتوقع
24 ستمبر 2015جمعرات کے روز پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے دورہء نیویارک میں ان کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات شامل نہیں ہے۔ اس طرح ایسی چہ مگوئیوں کا خاتمہ ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک باہمی کشیدگی میں کمی کے لیے اس اجلاس کو ایک موقع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور یہ کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اس کے حاشیے پر ملاقات کر سکتے ہیں۔
دونوں ممالک کے رہنما نیویارک میں ایک ہی ہوٹل میں قیام کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں متعدد میڈیا اداروں کا کہنا تھا کہ دونوں وزرائے اعظم اس موقع پر ملاقات کر سکتے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے البتہ ایسی رپورٹوں کو رد کیا، ’دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کی کوئی تجویز زیرِغور نہیں ہے۔‘
گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ملاقات بھی منسوخ کر دی گئی تھی، جس سے یہ امید لگائی جا رہی تھی کہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
بھارت اور پاکستان سن 1947ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان میں سے دو جنگوں کی وجہ متنازعہ علاقہ کشمیر کا مسئلہ رہا، جسے دونوں ممالک اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔
دونوں ممالک کے سرحدی دستوں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں دو طرف عام شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نواز شریف سن 2013 میں اقتدار میں آئے تھے، تو انہوں نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا عزم ظاہر کیا تھا، تاہم مقامی سیاسی صورت حال اور پے در پے بحرانوں کی وجہ سے ملکی فوج خارجہ اور سلامتی پالیسی سے متعلق معاملات پر پورا کنٹرول حاصل کر چکی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ برس اقتدار میں آنے والے نریندر مودی پاکستان کے حوالے سے سخت موقف کے حامل ہیں اور وہ بارہا یہ کہتے آئے ہیں کہ جب تک پاکستانی حکومت بھارت میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے، وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے۔