جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں عوامیت پسند لیڈروں کی شرکت
25 ستمبر 2018
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے عالمی لیڈروں کے خطابات پر مبنی سالانہ اجلاس چھبیس ستمبر سے شروع ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس یکم اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اس دوران ایک سو سے زائد عالمی رہنما مختلف موضوعات پر اظہار خیال کریں گے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اُس سالانہ چھ روزہ اجلاس کا آغاز آج سے ہو رہا ہے، جس کے دوران عالمی لیڈران کو باری باری خطاب کا موقع دیا جائے گا۔ اس اجلاس کا باضابطہ افتتاح سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی تقریر سے ہو گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ سیکرٹری جنرل اپنی تقریر میں ماحولیات کی گھمبیر ہوتی صورت حال اور مختلف ممالک میں پیدا ہونے والی عوامیت پسندی کو موضوع بنائیں گے۔
اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرمان حق کے مطابق اپنی تقریر میں سیکریٹری جنرل عالمی لیڈروں سے اپیل کریں گے کہ وہ اپنے اندر مزید یک جہتی پیدا کرتے ہوئے امن، انسانی حقوق کی بہتر صورت حال اور پائیدار ترقی کے لیے اتفاق و اتحاد کے ساتھ مثبت عملی اقدامات کا حصہ بنیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی آج اسی اجلاس میں تقریر کریں گے۔ وہ بدھ کے روز سلامتی کونسل کے جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق ایک خصوصی اجلاس کی صدارت بھی کریں گے۔ منگل ہی کو امریکی صدر کی تقریر کے کچھ ہی دیر بعد ایران کے صدر حسن روحانی کی تقریر شیڈیول ہے۔
یورپی یونین اور ایران تجارتی سرگرمیاں برقرار رکھنے پر متفق
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دوسرے عالمی لیڈروں کے ہمراہ جو عوامیت پسند رہنما شریک ہوں گے، ان میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، پولینڈ کے صدر آندرے ڈوڈا اور اٹلی کے وزیراعظم جُوزیپے کونٹے نمایاں ہیں۔ دو یورپی ملکوں ہنگری اور آسٹریا میں عوامیت پسند حکومتیں قائم ہیں لیکن اُن کی نمائندگی وزرائے خارجہ کریں گے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کا اختتام پہلی اکتوبر کو ہو گا اور مجموعی طور پر133 ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت نے اس اجلاس میں شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ گزشتہ برس اس اجلاس میں 114 لیڈران شریک ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی تعداد 193 ہے۔
ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے میں ساڑھے تین سو کے قریب ایسی میٹنگز ہوں گی، جن میں عالمی لیڈروں کی شرکت یقینی ہے۔ ان ملاقاتوں میں تنازعات، اختلافی معاملات اور دوسرے امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی اجلاس کے دوران پاکستانی و بھارتی وزرائے خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی آج سے شروع ہونے والی سمٹ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کے خلاف تحریک کے علمبردار نیلسن مینڈیلا کی ایک سوویں سالگرہ منائی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب دنیا میں یک طرفہ حکومتی نظام اور ملکی مالی مفادات کے تحفظ کو بین الاقوامی ضروریات پر فوقیت دینے کا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔