شامی شہریوں پر بمباری کرنے والا روسی جنرل اب یوکرین میں
14 اپریل 2022
روسی فوج کے جنرل الیکسانڈر دوورنیکوف پر شام میں عام شہریوں پر اندھا دھند بمباری کا الزام لگایا جاتا اور اسی وجہ سے انہیں 'شام کا قصاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کریملن نے یوکرین میں جاری جنگ کی کمان اب اسی روسی جنرل کو سونپی ہے۔
اشتہار
روس نے یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیوں کی نگرانی ایک ایسے جنرل کی سپرد کی ہے، جسے 'بُچر آف سیریا‘ یا 'شام کا قصاب‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم عسکری امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنرل دوورنیکوف شام میں تعینات دیگر روسی فوجی افسران جیسے ہی ہیں اور ان میں کوئی منفرد بات نہیں۔
جنرل دوورنیکوف کون ہیں؟
جنرل الیکسانڈر دوورنیکوف ساٹھ برس سے زائد عمر کے ایسے عسکری کمانڈر ہیں، جو روسی فوج میں مختلف نوعیت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جب روسی فوج نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی مدد شروع کی، تو وہ شام میں تعینات کیے جانے والے پہلے سینیئر روسی کمانڈر تھے۔ دوورنیکوف شام میں ستمبر 2015ء سے جولائی 2016ء، یعنی تقریباﹰ دس ماہ تک تعینات رہے تھے۔
تب 2011ء میں اسد خاندان کے خلاف شروع ہونے والا عوامی احتجاج ایک خونریز خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ 2015ء کے موسم گرما میں اسد حکومت نے روس سے مدد طلب کی اور اسی سال ستمبر میں روس اس جنگ میں شامل ہو گیا۔
شہری علاقوں پر بمباری
اس کے بعد روسی جنگی طیاروں نے شام کے شہری علاقوں پر اندھا دھند بمباری کرنا شروع کی، خاص طور پر شمالی شام کے شہر حلب میں۔ اس بمباری نے مزاحمتی تحریک کی کمر توڑ دی اور حالات اسد حکومت کے حق میں ہو گئے۔
روس جنگی طیاروں نے مساجد، بازاروں، اسکولوں، ہسپتالوں حتیٰ کہ کھیتوں تک کو نشانہ بنایا۔ اسد حکومت کے مخالف جنگجوؤں کے پاس بہت کم ہی اینٹی ایئر کرافٹ میزائل تھے اور اسی وجہ سے وہ روسی فوج سے لڑ نہ سکے، حالانکہ شامی فوج کے خلاف انہیں کچھ کامیابیاں ملی تھیں۔
شام میں روسی فوجی کارروائیوں کو کامیابی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے جنرل دوورنیکوف کو 'شام کے قصاب‘ کا نام دیا گیا تھا۔ انہیں 2016ء میں 'روسی فیڈریشن کا ہیرو‘ نامی اعلیٰ ملکی اعزاز بھی دیا گیا تھا۔
عام جنرل
واشنگٹن میں'آئی ایس ڈبلیو‘ نامی ایک تھنک ٹینک میں مبصرین کی جانب سے ایک جائزہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق شام میں جنرل دوورنیکوف کے طرز عمل یا عسکری قابلیت کی کوئی خاص تعریف نہیں کی جا سکتی، ''روسی دستوں نے شام میں مداخلت کے دوران شہریوں اور انتہائی اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا۔‘‘
اس جائزے میں مزید بتایا گیا کہ شام میں روسی دستوں کی کمان کے دوران جنرل دوورنیکوف کا شہری علاقوں کو ہدف بنانا کوئی خاص مہارت نہیں تھی اور اسے کوئی منفرد عسکری طریقہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ شام اور یوکرین میں استعمال کیے جانے والے حربے منفرد نہیں ہیں اور مؤثر بھی ثابت نہیں ہو رہے۔‘‘
شامی ’کیٹ مین‘: جنگ زدہ شہر میں بلیوں کا دوست
02:17
ایک منطقی تعیناتی
جنرل دوورنیکوف کو یوکرین میں جاری فوجی کارروائیوں کا نگران بنانا کوئی سنسنی خیز فیصلہ نہیں ہے۔ یہ بہت منطقی انتخاب ہے۔ 2016ء میں شام سے واپسی کے بعد سے وہ روس کے جنوبی علاقوں کے کمانڈر رہے ہیں، جن میں ڈونباس اور کریمیا بھی شامل ہیں۔ اطلاع ہے کہ ان علاقوں میں روس ایک نئی فوجی کارروائی شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پچھلے مہینوں کے دوران یوکرین میں ان تمام محاذوں پر کافی پیش قدمی ہوئی ہے، جو اس روسی جنرل کی نگرانی میں تھے۔ جنرل دوورنیکوف یوکرین کے محصور شہر ماریوپول کے اردگرد جاری آپریشنز کے بھی نگران تھے۔ وہ صرف جنوبی یوکرین میں سب سے طویل عرصے سے فوجی خدمات انجام دینے والے جنرل ہی نہیں بلکہ اس وقت سب سے سینیئر کمانڈر بھی ہیں۔
اشتہار
کیا روسی جنرل یوکرین میں بھی کامیاب ہوں گے؟
آئی ایس ڈبلیو نامی تھنک ٹینک کے مبصرین کے مطابق یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جنرل دوورنیکوف کا شام میں عسکری تجربہ یوکرین میں کچھ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ شام میں خدمات انجام دینے والے پہلے روسی کمانڈر تھے اور انہوں نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر آپریشنز کیے۔ لیکن یوکرین میں صورتحال مختلف ہے۔ یوکرین کے پاس اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور میزائل بھی ہیں۔ ان کے علاوہ یوکرین کے پاس جدید اسلحہ اور اپنی فضائیہ بھی ہے۔ لبنانی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک ریٹائرڈ جنرل الیاس ہانا کے مطابق شام میں روسی فوج نے صرف فضائی کارروائیاں کی تھیں اور جنرل دوورنیکوف نے فضائی بمباری کی نگرانی کی تھی، ''روسی پیدل فوج کا شامی سرزمین پر کبھی کسی فوج سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ مگر یہاں یوکرین میں زمین پر لڑائی ہو رہی ہے، دو ممالک کی افواج اور تربیت یافتہ دستوں کے درمیان، اور ساتھ ہی فضائی کارروائیاں بھی۔‘‘
شامی جنگ کی ایک دہائی، ایک تصویری دستاویز
اقوام متحدہ کے دفتر برائے کوآرڈینیشن انسانی امور نے شامی جنگ کی تصویری دستاویز مکمل کی ہے۔ اس میں شامی فوٹرگرافروں کی شاہکار تصاویر شامل ہیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں:۔
تصویر: Bassam Khabieh/OCHA
الرقعہ کے ملبے تلے دبی یادیں
اس تصویر میں ایک خاتون بچے کی گاڑی کے ساتھ الرقعہ کے ایک تباہ شدہ علاقے سے گزررہی ہیں۔ سن 2019 میں یہ تصویر عبُود حمام نے کھینچی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ الرقعہ شہر کی ہر گلی میں ان کی یادیں بکھری ہوئی ہیں لیکن اب اس شہر کی شکل ان کے لیے گہرے صدمے کا باعث ہے۔ حمام کے مطابق دکھ کی بات یہ ہے کہ شہر کا ماضی اور گزری زندگی کی سبھی یادیں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
تصویر: Abood Hamam/OCHA
نہ ختم ہونے والا سوگ
سن 2020 میں ادلب میں دو بھائی ماں کے مرنے پر گلے لگ کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے۔ فوٹو گرافر غیث السید سترہ برس کا تھا جب جنگ شروع ہوئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے شہر پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں میزائل لگنے سے ان کے بھائی امر کی موت ہوئی۔ تب سے میزائل حملے کا ہر منظر اس کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔
تصویر: Ghaith Alsayed/OCHA
تباہی میں سب چھن گیا
سن 2020 میں ایک ماں اور اس کا بچہ تباہ شدہ اسکول میں کھڑے ہیں۔ یہ تصویر محمد زیاد نے کھینچی تھی۔ زیاد شام کی جنگ شروع ہونے کے زمانے میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور فوٹوگرافر یا صحافی بننا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں اس کی تصاویر انسانی المیے کے شاہکار کی صورت میں کئی جریدوں میں چھپیں۔ زیاد کو اس سے بہت ہمت اور حوصلہ ملا ہے۔
تصویر: Mohannad Zayat/OCHA
بم دھماکوں سے بنے گھڑوں میں پانی
سن 2013 میں حلب شہر کا منظر۔ فوٹو گرافر مظفر سلمان ہیں۔ بم دھماکے سے تباہ شدہ اس پائپ سے ایک بچہ پانی پی رہا ہے۔ اس تصویر پر خاصی تنقید کی گئی کہ فوٹو گرافر کو تصویر بنانے کیبجائے بچے کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا چاہیے تھا۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ دیکھے بغیر حقیقت کا یقین اور حالات میں تبدیلی ممکن نہیں۔
تصویر: Muzaffar Salman/OCHA
الوداع اے غول!
مارچ سن 2018: ایک شخص اپنے بچے کو ایک سوٹ کیس میں ڈال کر گھسیٹتا ہوا بقیہ خاندان کے ساتھ غول سے فرار ہو رہا ہے۔ عمر صنادیکی اس کے فوٹوگرافر ہیں جنہوں نے اس امید پر یہ تصویر بنائی کہ شاید 50 سال بعد ان کی اپنی بیٹیاں اس انسانی المیے کی تصاویر دنیا کو دکھا سکیں۔
تصویر: Omar Sanadiki/OCHA
دُوما میں کافی کا ایک کپ
سن 2017 ایک عورت اور اس کا شوہر دوما کے نواح میں واقع اپنے مکان میں کافی پی رہے ہیں۔ دوما دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہے۔ فوٹوگرافر سمیر الدومی کے مطابق تصویر خاتون ام محمد کی ہے، جو زخمی ہونے کے بعد ابھی ٹھیک ہو رہی تھیں کہ ان کے شوہر فضائی حملے میں چلنے پھرے سے معذور ہو گئے۔ ام محمد کی اپنے شوہر کے لیے محبت قابل دید ہے۔
تصویر: Sameer Al-Doumy/OCHA/AFP
بیٹے کی قبر پر سوگوار ماں
یہ تصویر محمد ابا زید نے کھینچی۔ 2017ء میں عید الفطر کے پہلے دن ایک ماں اپنے بیٹے کو چوم رہی ہے اور گریا زاری کر رہی۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رک سکا۔ وہ اپنے آنسو پونچھتا جاتا اور درد وغم کے انتہائی لمحات کو عکس بند کرتا جا رہا تھا۔ یہ تصویر درعا کی ایک قبرستان میں بنائی گئی تھی۔
تصویر: Mohamad Abazeed/OCHA
مارٹر حملے میں ٹانگ کھو بیٹھنے والی بچی
دسمبر سن 2013 : پانچ سالہ بچی ’آیا‘ رات کے کھانے پر اپنے والد کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ تصویر اُس لمحے کارول الفرح نے کھینچی۔ بچی اسکول سے لوٹ رہی تھی کہ رستے میں مارٹر گولے کی زد میں آ گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک دھماکا ہوا اور اس کی ٹانگ جوتے سمیت اڑ گئی۔
تصویر: Carole Alfarah/OCHA
ایک انوکھا عارضی تربیتی کورس
یہ تصویر سن 2020 میں انس الخربوتی نے کھینچی۔ حلب کے علاقے کفر نوران میں تباہ شدہ عمارت میں ’پارکور ایتھلیٹس‘ کی ٹریننگ ایک تعمیری عمل۔ فوٹو گرافر کوملبے میں زندگی آگے بڑھانے کا جذبہ نظر آیا۔
تصویر: Anas Alkharboutli/OCHA/picture alliance/dpa
ادلِب میں ایک نئی زندگی کا امکان
علی حاج سلیمان نے یہ تصویر سن 2020 میں ادلب شہر کی جنوبی بستی بلیُون میں کھینچی۔ ’ غم اور خوشی کا ملا جلا جذبہ‘۔ ایک خاندان جنگ بندی معاہدے کے بعد واپس اپنے مکان پہنچا ہے۔ سلیمان کو خوشی ہوئی کہ یہ خاندان اپنے گھر لوٹا تاہم اسے دکھ ہے کہ وہ خود اپنے گاؤں اور گھر نہیں جا سکتا۔