بھارت کے نئے فوجی سربراہ جنرل منوج ناروانے شورش زدہ شمال مشرقی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ فوج کی مشرقی کمانڈ کی قیادت کر چکے ہیں جس پر بھارت چین سرحد کی نگرانی کی ذمہ داری ہے۔
اشتہار
منوج ناروانے جنرل بپن راوت کے جانشین ہیں۔ انہوں نے ج منگل 31 دسمبر کی صبح فوجی سربراہ کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا۔ اس موقع پر ایک سادہ تقریب میں جنرل بپن راوت نے چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کی چھڑی اپنے جانشین ناروانے کے حوالے کی۔ سبکدوش ہونے والے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے کہا، ''مجھے اعتماد ہے کہ وہ (جنرل ناروانے) فوج کو عظیم بلندیوں تک لے جائیں گے۔‘‘
بھارتی حکومت نے بپن راوت کو ملک کے پہلے 'چیف آف ڈیفنس اسٹاف‘ کے عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسٹر ناروانے 37 برس سے بھارتی فوج میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے مختلف ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔گزشتہ ستمبر میں جب انھیں فوج کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا تھا تبھی سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ وہی فوج کے آئندہ سربراہ ہوں گے۔ اس سے پہلے تک وہ فوج کی شمالی کمانڈ کی قیادت کر رہے تھے جو تقریباﹰ چار ہزار کلو میٹر طویل بھارت - چین سرحد کی حفاظت پر معمور ہے۔ سن 1987ء میں بھارت نے سری لنکا کے لیے جو فوج بھیجی تھی وہ اس میں بھی شامل تھے۔ وہ اپریل 2022ء تک فوج کے سربراہ رہیں گے۔
بھارتی حکومت نے 'چیف آف آرمی اسٹاف‘ کے عہدے کے لیے ابھی جنرل بپن راوت کے نام کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے تاہم مسٹر راوت نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ میڈیا سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ وہ اب نئے عہدے پر فائز ہوکر فوج کے لیے نئی حکمت عملی وضع کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''فوجی سربراہ کے عہدے کی بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ابھی تک میں فوجی سربراہ کی جیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ اب چونکہ میرا عہدہ الگ ہوگا تو میں بیٹھ کر مستبقل کے لیے حکمت عملی وضع کروں گا۔‘‘
بھارتی فوج میں چیف آف ڈیفنس سٹاف کے عہدے کا اعلان اس برس اگست میں کیا گیا تھا۔ مسٹر راوت اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے فوجی سربراہ ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی حیثیت سے وہ بری فوج، فضائیہ اور بحریہ سے متعلق تمام معاملات میں وزات دفاع کے اہم مشیر ہوں گے۔
چیف آف ڈیفنس کا عہدہ بھی تینوں فوجوں کے سربراہوں کے فور اسٹار عہدے کے برابر ہی ہے، یعنی اسٹار کی حیثيت سے یہ تینوں افواج کے سربراہوں کے برابر کا عہدہ ہے۔ حالانکہ بحریہ، فضائیہ اور بری فوج کے سربراہ انھیں براہ راست رپورٹ نہیں کریں گے اور پہلے کی طرح وزیر دفاع کے ہی تابع ہوں گے تاہم چیف آف ڈیفنس اسٹاف کو ان سے صلاح و مشورے کرنے کا اختیار ہوگا جس کی بنیاد پر وہ اپنی رائے وزیر دفاع کو سونپےگا۔
جنرل بپن راوت کئی بار اپنے متنازعہ بیانات کے سبب سرخیوں میں رہے ہیں اور انہیں ایک ایسے وقت پر اس عہدے پر مقرر کیا جا رہا ہے جب بیشتر اپوزیشن جماعتیں شہریت سے متعلق قانون کے حوالے سے ان کے ایک بیان پر شدید نکتہ چینی کر رہی ہیں۔
انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے متعلق سیاسی نوعیت کے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بعض رہنما عوام اور طلبہ کو تشدد کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنرل راوت کا یہ بیان سیاسی نوعیت کا ہے اور انھوں نے اس طرح کی بات حکومت کی اشاروں پر کی ہے۔ ایک سیاسی رہنما نے تو اس کے رد عمل میں صدر جمہوریہ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ چونکہ بپن راوت نے سیاسی نوعیت کا بیان دے کر فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے انہیں ان کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کردینا چاہیے۔
شہريت سے متعلق نيا بھارتی قانون مذہبی کشيدگی کا سبب
بھارت ميں منظور ہونے والے شہريت ترميمی بل کے ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ نيا قانون سيکولر اقدار اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس قانون کی مخالفت ميں جاری ملک گير احتجاج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Solanki
بھارت کے کئی علاقوں ميں انٹرنيٹ سروس معطل
رواں سال کے اواخر ميں ستائيس دسمبر کے روز بھارتی حکومت نے ملک کے کئی حصوں ميں سکيورٹی بڑھانے اور انٹرنيٹ کی ترسيل بند کرنے کے احکامات جاری کيے۔ شمالی رياست اتر پرديش ميں بھی اب انٹرنيٹ کی سروس معطل ہے۔ خدشہ ہے کہ شہريت ترميمی بل کی مخالفت ميں مظاہروں کی تازہ لہر شروع ہونے کو ہے۔ يہ متنازعہ بل گيارہ دسمبر کو منظور ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Khan
بھارتی سيکولر آئين کا دفاع
بھارت ميں منظور ہونے والا نيا قانون پاکستان، بنگلہ ديش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، سکھوں، پارسيوں، بدھ، جين اور مسيحيوں کے ليے بھارت ميں ’فاسٹ ٹريک‘ شہريت کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ قانون مسلمانوں کے حوالے سے امتيازی ہے اور مذہب کی بنياد پر شہريت دينا بھارت کی سيکولر اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Boro
شہريت ثابت کرنے سے متعلق متنازعہ پروگرام
بھارتی حکومت ايک اور منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت بغير دستاويزات والے غير قانونی مہاجرين کو نکالا جا سکے گا۔ ناقدين کو خدشہ ہے کہ اگر ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر ملک گير سطح پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے، تو بھارت کے وہ شہری جو اس منصوبے کی شرائط کے تحت اپنی شہريت يا بھارت سے تعلق ثابت کرنے ميں ناکام رہے، ان کی شہريت ختم کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Sen
آزاد خيال دانشور حکومتی پاليسيوں سے نالاں
بھارت میں کئی آزاد خيال دانشور نئے قانون اور ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر کھل کر تنقيد کر رہے ہيں۔ ان ميں معروف مصنفہ ارندھتی رائے پيش پيش ہيں۔ قدامت پسند سياستدان اور سابق کامرس منسٹر سبرامنين سوامی نے ارندھتی رائے کی گرفتاری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
بھارتی طلباء متحرک
بھارت کے متعدد شہروں کی ان گنت يونيورسٹيوں کے طلباء نے تازہ اقدامات کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ ملک گير سطح پر جاری مظاہروں ميں کئی طلباء تنظيميں سرگرم عمل ہيں۔ نوجوان نسل اپنا پيغام پہنچانے اور لوگوں کو متحرک کرنے کے ليے سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کا بھی سہارا لے رہے ہيں۔
تصویر: DW/A. Ansari
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی
بھارتی حکام نے احتجاج کچلنے کے ليے ہزاروں پوليس اہلکاروں کو تعينات کيا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مظاہرين کے درميان جھڑپوں ميں اب تک پچيس سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ بھارتی آرمی چيف نے بھی احتجاجی مظاہروں ميں طلباء کی شموليت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: AFP/B. Boro
ہندو قوم پرست اب بھی اپنے موقف پر قائم
تمام تر مخالفت اور احتجاج کے باوجود وزير اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتيہ جنتا پارٹی اب بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ پارٹی رہنماوں کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو غلط معلومات فراہم کی گئی ہيں اور لوگوں کو قانون کا مطلب نہيں معلوم۔ بی جے پی احتجاجی ريليوں کا الزام حزب اختلاف کی جماعت کانگريس پر عائد کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شہريت ترميمی بل کے حامی
راشتريہ سوايمسيوک سانگھ يا آر ايس ايس انتہائی دائيں بازو کی ايک ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ بی جی پی اسی جماعت سے نکلی ہے۔ آر ايس ايس کے کارکن بھی اس متنازعہ قانون کے حق ميں سڑکوں پر نکلے ديکھے گئے ہيں۔