1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتافریقہ

جنسی بیماری آتشک جان لیوا ہو سکتی ہے

25 دسمبر 2022

آتشک ایک ایسی جنسی بیماری ہے، جو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے لیکن کیا یہ ماضی کی بات نہیں ہے؟ جی نہیں! حالیہ چند برسوں میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں آپ کو کیا کچھ پتا ہونا چاہیے؟

FSU Jena Moulagen-Sammlung Wachsmodell zu Syphilis
تصویر: picture-alliance/ZB/Universität Jena

سن 1980ء کی دہائی میں ''محفوظ جنسی تعلقات‘‘ ایک عام نعرہ بنا ہوا تھا۔ یہ اُس دور کی بات ہے، جب جنسی بیماری 'ایڈز‘ کی دریافت  نئی نئی ہوئی تھی۔ تب محفوظ جنسی عمل کے موضوع پر گرما گرم بحث ہوا کرتی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ محفوظ جنسی تعلقات کا خیال ایک بار پھر پس پشت رکھ دیا گیا ہے۔

 شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے اس کی اہمیت نہیں، جو 80 کی دہائی میں پھیلنے والی اس بیماری سے پیدا ہونے والے بحران کا شکار نہ ہوئے ہوں۔  لیکن ایسے اشارے ہیں کہ نوجوانوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں آگہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔

آتشک اور اس انفیکشن کی عام علامات کیا ہیں؟

آتشک ایک متعدی جنسی مرض ہے، جو ایک مرغولی (پیچ کی شکل کے) جرثومے ٹروپونیما کے ذریعے لعاب یا کھال سے اعضائے تولید کو لگتا ہے اور پھر ہڈیوں، عضلات اور دماغ تک کو متاثر کرتا ہے۔ اس  کی علامات مختلف انسانوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ تاہم اکثر آپ کو السر یا پھوڑا ہوتا ہے، جہاں ٹروپونیما پیلیڈم کا سبب بننے والے بیکٹیریا جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ زخم ایک پمپل کے سائز سے لے کر ایک سینٹی میٹر چوڑائی تک کے سائز کا پھوڑا ہو سکتا ہے۔ مردوں میں عضو تناسل پر زخم ظاہر ہوتا ہے۔ خواتین میں یہ اندام نہانی یا لبیا پر پایا جا سکتا ہے۔ انفیکشن مقعد اور جسم کے دیگر حصوں کے ارد گرد بھی پھیل سکتا ہے۔

انسانی جنسی عمل سے کینسر کا باعث بننے والا وائرس، پاپیلوما

ابتدائی علامات

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس انفیکشن کی ابتدائی علامات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ آتشک کی پہلی علامات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ نہیں جان پائیں کہ یہ ہے کیا اور اکثر یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ یہ خود ہی ختم ہو جائے گا لیکن آتشک خود سے ظاہر نہیں ہوتا، یہ متاثرہ شخص کے ساتھ جنسی ملاپ کا نتیجہ ہے، اور یہ خود سے ٹھیک بھی نہیں ہوتا۔

آتشک کی علامات میں سے ایکتصویر: Universitätsklinikum Bochum

نوربرٹ بروکمیئیر ایک طبی ماہر ہیں۔ وہ اس عارضے کی علامات کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں،''ایک غیر متعینہ مدت کے بعد، جلد پر خارش پیدا ہوتی ہے کیونکہ پیتھوجینز خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں‘‘، بروک میئر کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پورے جسم پر زخم ہیں۔ کچھ ابھرے ہوئے ہیں، کچھ قدرے کُھردرے ہیں، کچھ سرخی مائل ہیں۔‘‘

نوجوان ہر وقت کنڈوم اپنے ساتھ رکھیں، ہسپانوی حکومت

آتشک کے مختلف مراحل

عموماً تلووں یا ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر سوزش آ جاتی ہے جلد کُھردوری ہو جاتی ہے۔ ماہر نوربرٹ بروکمیئیر کے بقول،'' ان میں خارش نہیں ہوتی اور الرجی ریشس سے انہیں تمیز کرنا آسان ہوتا ہے۔‘‘ یہ اس بیماری کا دوسرا درجہ یا مرحلہ ہوتا ہے۔

تیسرے مرحلے میں انفیکشن بہت سنگین ہو جاتا ہے۔ یہ اندرونی اعضاء، ایئر ویز، معدے اور جگر بلکہ پٹھوں اور ہڈیوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ صورتحال اس وقت نازک ہو جاتی ہے جب شہ رگ، مرکزی شریان پر ایک ''سیفیلیٹک نوڈ‘‘ بن جائے۔ یہ ایک aortic aneurysm کا باعث بن سکتا ہے، جو جان لیوا ہے۔

آتشک تقریباً 25 فیصد مریضوں میں دماغ کی دائمی سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ یہ بیماری آنکھوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

ایڈز مرض کا وائرس اب جنسی عمل سے منتقل نہیں ہو گا، معالجین

کینیڈا کے ایک معروف طبیب سر ولیم اوسلر نے انیسویں صدی کے آخر میں کہا تھا، ''جو آتشک کو جانتا ہے، وہ طب دان ہے۔‘‘

کیا آتشک کا علاج ممکن ہے؟

ابتدائی طور پر، آتشک کا علاج سالوارسن سے کیا جاتا تھا، جو ایک آرسینک مرکب تھا جو 1910 ء میں مارکیٹ میں آیا تھا۔ بعد ازا سن 1943 میں، پینسیلین انتخاب کی دوا بن گئی اور آج بھی ہے۔

یہ بھی اس جنسی بیماری کی ایک شکل ہو سکتی ہےتصویر: Universitätsklinikum Bochum

''دیگر اینٹی بائیوٹکس پہلے ہی مزاحمت دکھا رہے ہیں، بروک میئر نے خبردار کرتے ہوئے کہا،''اگر پیتھوجین  پینسیلین کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں، تو یہ ہمارے لیے  ایک مسئلہ بن جائے گا جس کا حل  بہت زیادہ کوششوں طلب ہوگا۔ اسی لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ریزرو اینٹی بائیوٹکس تیار کریں اور انہیں ٹیسٹ کریں۔‘‘

آتشک کا ماضی میں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال

آتشک یورپ میں کیسے آئی اس بارے میں بہت سے نظریات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کی تسخیر کرنے والا  کرسٹوفر کولمبس اور اس کے ساتھی جب سن 1492 میں امریکہ کی مہم سے اسپین واپس آئے تو اسے اپنے کارگو کے ساتھ لے آئے۔ یہ بیماری پھر اٹلی اور فرانس میں پھیلی اور وبا کی شکل اختیار کر گئی۔ تب یہ بیماری''فرنچ ڈیزیز‘‘ یا ''فرانسیسی بیماری‘‘ کہلائی  جو یورپ سے ایشیا میں پہنچی۔ بہرحال جلد ہی واضح ہو گیا کہ آتشک ایک متعدی بیماری ہے اور منتقل ہو سکتی ہے۔

جینیاتی ترمیم شدہ بچوں کی پیدائش، سائنسدان کو جیل کی سزا

تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ جنگوں میں فوجوں کا ساتھ دینے اور بطور سودا بیچنے والوں کو سٹلر کہا جاتا تھا۔ بروک میئر کے مطابق سٹلر وہ عورتیں تھیں جو جنگوں میں فوجوں کا ساتھ دیتی تھیں اور جنسی کارکنوں کے طور پر کام کرتی تھیں۔ بروک میئر کا کہنا ہے، '' اگر یہ معلوم ہوتا تھا کہ کچھ سٹلر آتشک سے متاثر ہیں، تو انہیں دشمن کی فوجوں میں محبت کے سفیر کے طور پر بھیجا جاتا تھا۔‘‘

کچھ جنگوں کا فیصلہ آتشک کے ذریعہ ہوا۔ جب سپاہی اس بیماری سے متاثر ہوئے اور ان کی صفیں اس بیماری سے ختم ہوگئیں۔ بروک میئر کے مطابق ،''یہاں تک کہ کئی صدیوں پہلے بھی حیاتیاتی جنگ کی جاتی تھی۔‘‘

آتشک انفیکشن کا پیتھوجینتصویر: picture-alliance/dpa/PD Dr. Annette Moter/Charite-Universitätsmedizin Berlin

شعور بیدار کرنے کی کمی

اس بیماری کے خلاف تعلیم اور علاج کے لیے  پیسے کی کمی پائی جاتی ہے۔ آتشک کا عارضہ آج  معاشرے میں فراموش ہو گیا ہے، جو  خطرناک ہے کیونکہ یہ اب بھی پایا جاتا اور نشوونما پا رہا ہے۔  اس خطرناک متعدی بیماری پر بہتر گرفت حاصل کرنے کے لیے تعلیم، مشاورت، تشخیص اور علاج سب سے اہم اقدامات ہیں۔

روک تھام کا بہترین طریقہ محفوظ جنسی تعلقات ہیں۔ کنڈوم کا استعمال کریں کیونکہ یہ STIs سے تحفظ فراہم کر سکتا ہے لیکن تعلیم بھی بہت ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے سینٹر فار سیکچوئل میڈیسن اینڈ ہیلتھ نے معلومات اور مشاورت کو فہرست میں اسے سب سے اوپر رکھا ہے۔

(گؤدرون ہائزے) ک م/ ع ت

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں