جنسی خدمات خریدنے پر پابندی: ’کوئی جسم فروشی اچھی نہیں ہوتی‘
5 اپریل 2019
جرمنی کو کئی لوگ ’یورپ کا قحبہ خانہ‘ بھی کہتے ہیں، جسم فروشی سے متعلق کافی نرم قوانین کے باعث۔ حال ہی میں جرمن شہر مائنز میں منعقدہ ایک کانگریس میں کئی تنظیموں نے ملک میں جنسی خدمات کی خریداری پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اشتہار
اس کانگریس میں جس ایک بات پر شرکاء نے مکمل اتفاق رائے کا اظہار کیا، وہ یہ تھی کہ کوئی بھی خاتون اپنی مرضی سے جسم فروش نہیں بنتی۔ زاندرا نوراک (نام دانستہ طور پر بدل دیا گیا ہے) نے چھ سال تک ایک جسم فروش خاتون کے طور پر کام کیا۔ وہ ابھی قانونی طور پر نابالغ اور 13 ویں جماعت کی طالبہ تھیں کہ انٹربیٹ پر ان کا ایک قدرے بڑی عمر کے مرد سے رابطہ ہوا، جس نے انہیں اپنی طرف سے شدید محبت کا یقین دلایا۔
2008ء میں جب زاندرا کو اپنے گھر میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور انہوں نے اپنی تعلیم بھی نامکمل ہی چھوڑ دی تھی، تو وہ گھر چھوڑ کر اپنے اس زیادہ عمر کے مرد دوست کے ساتھ رہنے لگیں۔
اسی نام نہاد دوست نے انہیں جسم فروشی پر مجبور کر دیا۔ زاندرا نوراک ایک ایسے جال میں پھنس چکی تھیں، جس کے لیے سماجی ماہرین ’لَور بوائے میتھڈ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
اس آدمی نے زاندرا کو جسم فروشی کے ایک ایسے مرکز پر پہنچا دیا، جہاں ایک طے شدہ رقم ادا کر کے خواتین کی جنسی خدمات خریدی جا سکتی تھیں۔ وہاں زاندرا کو چار ہفتے کے عرصے میں 400 سے لے کر 500 تک مردوں کو جنسی خدمات مہیا کرنا پڑیں۔
اب زاندرا کی عمر 29 برس ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ آپ خود کو کوئی ایسا انسان سمجھ ہی نہیں سکتے، جو کچھ محسوس بھی کر سکتا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی اپنی شخصیت اور انفرادی شناخت بالکل تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘
زاندرا نوراک نے یہ سب باتیں ایک ایسی عالمی کانگریس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہیں، جس کا انعقاد دو اپریل سے لے کر پانچ اپریل تک مائنز میں کیا گیا۔ اس کانگریس کا موضوع لڑکیوں اور خواتین کے جنسی استحصال کا تدارک تھا۔ اس اجتماع میں جسم فروشی اور جنسی استحصال کے خلاف سرگرم کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے تین سو کے قریب خواتین و حضرات نے شرکت کی۔
’مرد پیسے دے کر طاقت کا احساس خریدتے ہیں‘
زاندرا نوراک جسم فروشی ترک کر دینے کے بعد اب ایک ایسی تنظیم سے وابستہ ہیں، جس کا نام ’سسٹرز‘ یا ’بہنیں‘ ہے۔ یہ غیر سرکاری امدادی تنظیم جسم فروشی پر مجبور خواتین کی ذلت کی اس زندگی سے نکلنے میں مدد کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’جسم فروشی کو اسی طرح تسلیم کیا جانا چاہیے، جیسی کہ وہ ہے: انسانی وقار کی خلاف ورزی اور اسے جبر کے ذریعے زخمی کر دینے والا ایک عمل۔‘‘
زاندرا نوراک کے اس موقف کی اس بین الاقوامی کانگریس کے تمام شرکاء نے مکمل حمایت کی۔ انہوں نے اس خاتون کے اس نقطہ نظر کو غیر مشروط طور پر تسلیم کیا، ’’جسم فروشی کا آغاز کسی مجبوری یا ضرورت سے ہوتا ہے اور انجام وہ جبر ہوتا ہے، جس کے ذریعے پھر ایسی عورتوں کا مسلسل جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔‘‘
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
10 تصاویر1 | 10
اس کانگریس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جرمنی میں نسائی تحریک کی ایک سرکردہ کارکن اور خواتین کے جریدے ’اَیما‘ کی ناشر ایلس شوارسر نے کہا، ’’ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں جسم فروشی اور قحبہ خانوں کو سماجی طور پر قابل قبول حقائق تسلیم کیا جا چکا ہے۔‘‘
ایلس شوارسر نے کہا، ’’رقم کے بدلے خواتین کی جنسی خدمات خریدنے والے مرد دراصل کوئی جنسی تعلق نہیں خریدتے بلکہ وہ اس احساس کو خریدتے ہیں، جس کے باعث وہ خود کو عورت پر غالب محسوس کرتے ہیں۔‘‘
اس کانگریس کے اختتام پر جو اعلامیہ متفقہ رائے سے منظور کیا گیا، اس میں مطالبہ کیا گیا کہ جرمنی کو اپنے ہاں جنسی خدمات کی فراہمی سے متعلق وہ ماڈل متعارف کرانا چاہیے، جو ’نارڈِک ماڈل‘ کہلاتا ہے۔ اس ماڈل کے تحت سویڈن، آئرلینڈ اور فرانس سمیت کئی ممالک میں ’رقم کے بدلے جنسی خدمات کی خریداری‘ قانوناﹰ جرم سمجھی جاتی ہے اور سزا کی مستحق متعلقہ خاتون نہیں بلکہ مرد ہوتا ہے۔
راحل کلائن / م م / ع ا
بنگلہ دیش میں جسم فروشی
بنگلہ دیش میں 2000ء سے جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی ملک میں جبری جسم فروشی انتہائی تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
جبری جسم فروشی
بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو کم عمری میں جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں آباد بہت سے غریب خاندان 20 ہزار ٹکوں کے عوض اپنی لڑکیوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان لڑکے شادی کا لالچ دے کر لڑکیوں کو اس دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
پرکشش بنانے والی ’ادویات‘ کا استعمال
جسم فروش لڑکیاں اکثر پرکشش دکھائی دینے کے لیے مخصوص دوائیں (اوراڈیکسن) استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ صحت مند دکھائی دیں اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ ایسی ہی دوائیں کسان اپنے مویشیوں کو موٹا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق طویل عرصے تک اوراڈیکسن کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
دوا کے بجائے ٹیکے
اوراڈیکسن کم عمر بالخصوص بارہ سے چودہ برس کی عمر کی لڑکیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایک قحبہ خانے کی مالکن رقیہ کا کہنا ہے کہ جواں سال جسم فروشوں کے لیے ٹیکے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
ادویات کا وسیع تر استعمال
غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی تقریباﹰ نوّے فیصد لڑکیاں اوراڈیکسن استعمال کرتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر والی جسم فروش خواتین میں بہت مقبول ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباﹰ دو لاکھ لڑکیاں جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
قحبہ خانوں میں مہم
ایکشن ایڈ نے جسم فروشوں کو اوراڈیکسن کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے قحبہ خانوں میں ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوائی کی عادی خواتیں کو مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے ایک کارکن کے مطابق یہ دوا استعمال کرنے والی عورتوں کا وزن تو تیزی سے بڑھ ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور سر میں درد کی شکایت بھی رہنے لگتی ہے۔
تصویر: GMB Akash
ایچ آئی وی انفیکشن
بنگلہ دیش کے مقامی اخبار جسم فروشوں کے ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی خبریں اکثر شائع کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ جسم فروش عورتوں کے مطابق ان کے اکثر گاہک کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تصویر: AP
جسم فروشی کے لیے بچوں کا استعمال
بنگلہ دیش میں یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے 2004ء کے ایک اندازے کے مطابق وہاں دس ہزار کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 29 ہزار ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
اسلام پسندوں کے حملے
گزشتہ برس اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش کے ایک جنوبی علاقے میں ایک قحبہ خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ تقریبا پانچ سو افراد بے گھر ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں جسم فروشی کے مراکز پر ایسے حملے معمول کی بات ہیں۔