جنسی زیادتیوں میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے؟
15 نومبر 2020تصور کیجئے چار سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ نہیں بنایاگیا بلکہ ماں سمیت اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ہماری قریب قریب کی تاریخوں میں ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سماج میں عورت کو کمزور کرنے کے لیے، جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اب بچے بھی اسی سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ان پانچ سالوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 22 ہزار واقعات درج ہوئے۔
اب ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا ہے اور سوچنا ہے کہ چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کا یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ ننھے ننھے کپڑوں میں فحاشی تھی یا پاک سماج کی آنکھ میں کہیں فحاشی ہے؟
پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے کیسز میں سے صرف 0.3 فیصد کیسوں میں ملزمان کو سزا ہوئی ہے۔ اول تو یہاں سماجی دباؤ کی وجہ سے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے، اگر ہوتے ہیں تو وہ ہمارے تصورات اور اداروں کی نااہلی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جہاں ریاست کی طرف سے تحفط نہ ہونے کے برابر ہو اور انصاف بھی مجرم کے حق میں نعرے لگاتا ہو، وہاں جرائم میں اضافہ نہ ہو تو کیوں نہ ہو؟
یہ بھی پڑھیے:
جنسی جرائم کہیں ہماری روایت کا حصہ تو نہیں؟
جنسی زیادتی، کیا چوک پر لٹکا دینا مسئلے کا حل ہے؟
ہمارے ہاں جنسی زیادتی کا واقعہ سامنے آجائے تو اس کا آدھا ملبہ ہم متاثرہ فرد پر اور آدھا فحاشی پر ڈال دیتے ہیں۔ موٹروے ریپ کیس کے بعد پنجاب پولیس کے ذمہ دار نے کہا، ''خاتون خود راستے پر گئی اور نکلتے وقت پٹرول بھی چیک نہیں کیا۔‘‘ وزیراعظم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''جن ملکوں میں فحاشی زیادہ ہوتی ہے، وہاں جنسی جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور خاندانی نظام تباہ ہوتا ہے۔‘‘
ہمارے علم کے مطابق پاکستان ایک مسلمان ریاست ہے، جہاں فحاشی کی روک تھام کے لیے باقاعدہ چیک اور بیلنس کا نظام موجود ہے۔ یہاں پورن سائٹس بند ہیں اور انڈین فلمیں دیکھنے کی ممانعت ہے۔ آئے روز فحاشی کے خلاف تحریکیں چلتی ہیں، بیانات ہوتے ہیں لیکن جنسی جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خاندانی نظام تو ماشااللہ اتنا مضبوط ہے کہ اگر ملزم اپنا ہی کوئی رشتے دار نکل آئے تو پوری کامیابی کے ساتھ بات اندر ہی کہیں دبا دی جاتی ہے۔ اسے اور کتنا مضبوط کرنا ہے؟
دوسری طرف ملک میں جنسی زیادتی کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو سزاوں کے متعلق ایک غیر ضروری بحث چھڑ جاتی ہے۔ ملزم کو کس نوعیت کی سزا ہونی چاہیے، کتنی ہونی چاہیے، کہاں ہونی چاہیے وغیرہ۔ حقائق، اعدادوشمار اور رویوں کو دیکھ کر کوئی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ہم الٹی گنگا میں بیٹھ کر ہاتھ دھو رہے ہوتے ہیں۔
دو سال قبل پنجاب کے شہر قصور میں چھ سالہ زینب کے اغوا، جنسی تشدد اور قتل کے بعد زینب الرٹ بل منظور کیا گیا۔ زینب کا یہ واقعہ اسی قصور میں پیش آیا تھا، جہاں 100 سے زیادہ بچوں کو نہ صرف یہ کہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا بلکہ ویڈیوز بھی بنائی گئیں اور ان ویڈیوز کے ذریعے دھمکیاں دے کر پیسے بھی بٹورے گئے۔
اس کیس میں 17 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 10 ملزمان کو ضمانت پر رہا بھی کر دیا گیا۔ زینب الرٹ بل اس علاقے کے بچوں کو بھی انصاف نہ دلا سکے، جس علاقے سے خود زینب کا تعلق تھا۔ زینب زیادتی کیس میں ملوث شخص کو فوری پھانسی دے دی گئی مگر واقعات میں تیزی ہی دیکھی گئی۔
قومی اسمبلی میں سر عام پھانسیوں اور مردانہ صلاحیت ختم کرنے جیسی سزائیں بھی زیر بحث آ گئیں مگر واقعات ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ معاملہ قانون سے زیادہ ہماری سوچ اور فکر کا تو نہیں ہے؟ کیا سوچ اور فکر کا جائزہ لیے بغیر کوئی قانون ہمارے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتا ہے؟