جنسی زیادتی کی گئی، افغان فٹ بال خواتین کھلاڑیوں کا الزام
3 دسمبر 2018
افغان خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی دو کھلاڑیوں نے فٹ بال فیڈریشن اور متعدد کوچوں پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ انہیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اشتہار
افغان خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی دو کھلاڑیوں کی طرف سے عائد کیے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد افغانستان میں ایک ہلچل مچ گئی ہے۔ ان خواتین کھلاڑیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم افغان فٹ بال فیڈریشن نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
ان فغان خواتین کھلاڑیوں کے الزامات کے بعد فٹ بال کے منتظم عالمی ادارے فیفا نے حقائق جاننے کی خاطر اپنی انکوائری شروع کر دی ہے۔ افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کی متعدد کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ بہتر زندگی اور مالیاتی مراعات کے عوض کوچنگ اسٹاف انہیں جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ان الزامات کی زد میں افغان فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ کریم الدین کریم اور دیگر کوچز بھی آئے ہیں۔ تاہم کریم نے کہا، ’’میں اس (ان الزامات) کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کریم اس تمام اسکینڈل میں مرکزی کردار ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کریم کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اردن میں شروع ہوا، جہاں ایک تربیتی کیمپ لگایا گیا تھا، ’’یورپ اور امریکا سے تعلق رکھنے والی تین کھلاڑیوں نے حجاب نہیں پہنا ہوا تھا، اس کے نتیجے میں افغانستان میں غم و غصہ پیدا ہوا۔‘‘ کریم کے مطابق اس معاملے پر انہیں وطن میں علماء کو وضاحت پیش کرنا پڑی۔
کریم نے کہا کہ اس معاملے کے بعد ایک ویمن کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام خواتین کھلاڑی حجاب پہنیں گی تاہم کچھ کھلاڑیوں نے اس پر عمل نہ کیا اور انہیں ڈراپ کر دیا گیا۔ کریم کے بقول یہی معاملہ بعدازاں بڑا ہوا اور ان کھلاڑیوں نے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کر دیے۔
تاہم افغان خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی کپتان شبنم مابرز اور ان کی پشرو خالدہ پوپل نے کریم کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ پوپل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ’’افغان فٹ بال فیڈریشن میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد ہماری لڑکیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ جنسی طور پر چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔‘‘
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.