جنسی زیادتی کے نتیجے میں حمل کا اسقاط بھی قانوناﹰ ممنوع
16 مئی 2019امریکی ریاست آلاباما کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی گورنر کے آئیوی کی جانب سے دستخط کیے جانے کے بعد ان قوانین پر اگلے چھ ماہ میں عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ گورنر آئیوی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اس قانون کے بہت سے حامی ہیں۔ یہ قانون سازی آلاباما کے باسیوں کے اپنے عقیدے پر پختہ یقین کی عکاس ہے کہ ہر زندگی قیمتی ہے اور یہ خدا کا ایک مقدس تحفہ ہے۔‘‘
ریاستی سینیٹ نے گزشتہ روز اسقاط حمل کے جس قانون کو منظور کیا تھا، اس کے مطابق جنسی زیادتی یا غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ سے ٹھہرنے والے حمل کو بھی ضائع نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی طرح جنین ضائع کرنے میں مدد دینے والے کسی بھی ڈاکٹر کو عمر قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم نئے قانون میں اسقاط حمل کرانے والی خواتین کے لیے سزا کا تعین نہیں کیا گیا۔ اگر کسی خاتون کو صحت کے شدید مسائل ہوں، تو اسے اسقاط حمل کی اجازت ہو گی۔
اس ریاست کے تمام پچیس سینیٹر مرد ہیں۔ ریپبلکن قانون سازوں اور اسقاط حمل کے مخالفین کو امید ہے کہ نئی قانون سازی کے بعد سپریم کورٹ 1973ء میں اس تناظر میں کیے جانے والے اس فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دے گی، جس میں حمل ضائع کروانے کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ ’رو اینڈ ویڈ‘ نامی اس قانون کے تحت امریکی خواتین کو اسقاط حمل کا آئینی حق دیا گیا تھا۔
اس قانون کے مخالفین کا موقف ہے کہ ریپبلکن سیاست دان سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے خواتین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ڈیموکریٹ سینیٹر بوبی سنگلٹن نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں اسقاط حمل میں مدد دینے والوں کے لیے جنسی زیادتی کرنے والوں سے زیادہ سزا رکھی گئی ہے۔
اسی طرح ’پلَینڈ پیرنٹ ہُڈ ساؤتھ ایسٹ‘ نامی تنظیم کی سی ای او اسٹیسی فوکس نے کہا، ’’یہ صرف سیاسی کھیل ہے، جس میں خواتین کو پیادے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ ان کے بقول سچائی یہ ہے کہ اسقاط حمل پر پابندی سے حمل ضائع کرانے کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا، ’’لیکن اس طرح محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کا راستہ روک دیا گیا ہے۔‘‘