1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی غلامی سے آزادی پانے والی لڑکیوں کا ’مسیحا‘

13 جولائی 2017

16 سالہ پائل بے پناہ امیدوں کے سہارے بنگلہ دیش سے بھارت آئی تھی۔ رقص کی تربیت کے کسی مرکز میں نوکری کا جھانسہ دینے والوں نے اُسے انسانوں کے تاجروں کے حوالے کر دیا۔ اس صورتحال میں مشرف حسین نے ایک مسیحا کا کردار ادا کیا۔

تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

روئٹرز فاؤنڈیشن نے اپنے ایک جائزے میں پائل کے المیے کو موضوع بنایا ہے، جس میں مشرف حسین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پائل مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والے ایک جال کے نیچے چھپ کر بھارتی شہر پونا پہنچی۔ وہاں پہنچتے ہی اُسے انسانوں کی تجارت کرنے والوں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا، جنہوں نے اس پر تشدد کیا اورایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیا۔ ان افراد نے بعد ازاں اسے جسم فروشی پر بھی مجبور کر دیا۔

نو مہینے اور گیارہ دن اس اذیت میں رہنے کے بعد پائل کو اس غلامی سے آزادی ملی۔ اسے علم نہیں تھا کہ اب وہ بنگلہ دیش واپس کیسے پہنچے گی۔

بھارت میں جسم فروشی کے لیے قانونی جنگ

بھارت: جسم فروشی کے اڈوں پر چھاپے، تيس خواتین بازیاب

 

تصویر: AP

ٹھیک اس موقع پر پونا سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور نئی دہلی میں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن میں قونصلر کے شعبے کے سربراہ مشرف حسین انسانوں کے تاجروں کے چنگل سے آزاد کرائی جانے والی کئی سو لڑکیوں کے سفری دستاویزات تیار کروانے میں مصروف تھے، ’’مجھے بنگلہ دیش کی ایک ایسی لڑکی اور  ایک لڑکا ملے، جو طویل عرصے سے واپس جانے کے کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ یہ لوگ بہت مشکل میں تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تحقیقاتی عمل بھی بہت سست ہے۔‘‘

گزشتہ دو برسوں سے حسین ان کوششوں میں لگے ہیں کہ جنسی مقاصد کے لیے بنگلہ دیش سے بھارت لائی جانے والی لڑکیوں کو بازیابی کے بعد جلد از جلد واپس ان کے گھروں کو بھیجا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے کئی مراکز کے دورے بھی کر چکے ہیں اور اسی دوران پونا میں ان کی ملاقات پائل سے ہوئی تھی۔ حسین نے بتایا کہ پائل اگلے دو مہینوں کے دوران اپنے گھر واپس لوٹ جائے گی۔

حسین کی کوششوں کی وجہ سے اب تک 438 لڑکیاں واپس اپنے گھروں میں پہنچ چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اغوا یا نوکری کا جھانسہ دے کر زیادہ تر لڑکیوں کو بھارتی ریاست مہاراشٹر لایا جاتا ہے۔

 

 

جسم فروشی پر مجبور فلپائنی بچیاں

01:16

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں