’جنسی، مالیاتی جرائم‘: اس سال نوبل ادب انعام نہیں دیا جائےگا
30 ستمبر 2018
سویڈش اکیڈمی کو درپیش جنسی اور مالیاتی جرائم کے اسکینڈل کے باعث اس سال ادب کا نوبل انعام نہیں دیا جائے گا۔ اس اکیڈمی کی ایک قریبی شخصیت کو مالیاتی جرائم کے علاوہ ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا بھی ہے۔
اشتہار
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن سے اتوار تیس ستمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ہر سال ادب کے نوبل انعام کی حقدار ادبی شخصیت کا انتخاب کرنے والی سویڈش اکیڈمی کو ابھی تک ایک ایسے بڑے اسکینڈل کا سامنا ہے، جو اس کی ساکھ کے لیے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔
اس جنسی اسکینڈل کا مرکزی کردار ژاں کلود آرنو نامی ایک ایسے فرانسیسی شہری ہیں، جو سویڈن میں ایک انتہائی اہم ثقافتی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ آرنو ہی کی وجہ سے اس اکیڈمی کی ساکھ نہ صرف بری طرح متاثر ہوئی بلکہ وہ اپنی معمول کی کارکردگی میں ایک سال کے وقفے کا اعلان کرنے پر بھی مجبور ہو گئی تھی۔
اس وقت 72 سالہ ژاں کلود آرنو کے خلاف سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم کی ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت ابھی جاری ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ متعدد مالیاتی بے قاعدگیوں کے علاوہ سات برس قبل ایک خاتون کے دو مرتبہ مبینہ ریپ کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ آرنو اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ژاں کلود آرنو کے خلاف مقدمے کا فیصلہ کل پیر یکم اکتوبر کو متوقع ہے اور یہ وہی دن ہے جب کارولِنسکا انسٹیٹیوٹ کی طرف سے اس سال کے لیے نوبل انعامات کی حقدار شخصیات کے ناموں کے اعلان کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یکم اکتوبر کو کیا جانے والا پہلا اعلان طب کے امسالہ نوبل انعام کی حقدار شخصیت یا شخصیات سے متعلق ہو گا۔
نوبل انعام برائے ادب حاصل کرنے والے ادیب
ادیبوں کی پذیرائی کے لیے نوبل انعام برائے ادب ایک انتہائی اعلیٰ اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران یہ اعزاز کن کن ادیبوں کے حصے میں آیا ہے۔
تصویر: AP
سن 2015 : سویٹلانا الیکسیوِچ
بیلاروس کی ادیبہ اور صحافی سویٹلانا الیکسیوِچ کو رواں برس کا نوبل انعام برائے ادب دیا گیا ہے۔ ان کی تخلیقات کو ’دور حاضر کے دکھوں اور حوصلے کی یادگار‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ایسی 14 ویں خاتون ہیں، جنہیں 1901ء کے بعد اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2014 : پیٹرک مودیانو
فرانسیسی ناول نگار پیٹرک مودیانو کو گزشتہ برس نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا تھا۔ ان کی تصانیف میں دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں موجودہ کرداروں کے ساتھ سفر کرتی نظر آتی ہیں۔ ان تمام کہانیوں کا تعلق زیادہ تر پیرس یا اس کے گرد و نواح سے ہی ہے۔ فرانس پر نازیوں کے قبضے کی تلخ اور دہلا دینے والی یادیں مودیانو کی کہانیوں میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Kovarik
سن 2013 : ایلس منرو
کینیڈا سے تعلق رکھنے والی اس خاتون ادیبہ کو عصر حاضر میں افسانہ نگاری کا استاد قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں سویڈئش رائل اکیڈمی نے 2013ء میں اس معتبر انعام سے نوازا تھا۔ وہ ’میَن بکر انٹرنیشنل پرائز‘ اور تین مرتبہ ’کینڈین گورنر جنرل ایوارڈ‘ کے حق دار بھی قرار دی جا چکی ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
سن 2012 : مو یان
گوان موئی کا قلمی نام مو یان ہے، وہ زیادہ تر اسی نام سے جانے جاتے ہیں۔ سوئڈش رائل اکیڈمی کے مطابق اس لکھاری کی تحریروں میں ’ لوک کہانیوں میں التباسی حقیقت نگاری‘ کا رنگ انتہائی پکا ہے۔ ان کی تخیلقات کئی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہیں۔ انہیں سن 2012 میں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2011 : ٹوماس ٹرانس ٹرومر
سال 2011 کے نوبل انعام برائے ادب کے لیے سویڈش شاعر، مترجم اور ماہر نفسیات کو چنا گیا تھا۔ رائل سوئڈش اکیڈمی کے مطابق ٹرانس ٹرومر نے اپنی شاعری میں استعمال ہونے والے الفاظ کو تصاویری رنگ میں پیش کیا، جس کے نتیجے میں قاری کے ذہنوں میں ایک تازگی کا احساس پیدا ہوا۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ بطور سائیکالوجسٹ کام کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری ساٹھ زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
سن 2010 : ماریو وارگاس لوہسا
پیرو کے ناول نگار للوسا کو 2010ء میں اس اہم انعام سے نوازا گیا۔ ان کی کہانیوں میں طاقت کے ایوانوں کے خلاف انفرادی مزاحمت، انقلاب اور شکست جیسے موضوعات عام ہیں۔
تصویر: AP
سن 2009 : ہیرٹا ملر
جرمن۔ رومانئین ادیبہ ہیرٹا ملر نے اپنی شاعری اور نثر میں رومانیہ میں استحصال کے شکار افراد کو موضوع بنایا۔ وہ رومانیہ کی چاؤشیسکو حکومت کی سخت ناقد تھیں۔ وہ 1987ء میں رومانیہ کو خیر باد کہہ کر مغربی برلن منتقل ہو گئی تھیں۔ انہیں جرمن زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
تصویر: Getty Images
سن 2008 : جے ۔ایم۔ جی لی کلیزیو
ژاں ماری لی کلیزیو کو سن 2008 میں نوبل انعام برائے ادب دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایڈونچر اور حسیائی لطف جیسے موضوعات کی آمیزش سے اپنے اسلوب کو ایک نئی جہت فراہم کی۔ وہ انیس سو چالیس میں فرانس کے شہر نیس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد فرانسیسی جبکہ والدہ موریطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہوں نے موریطانیہ کی شہریت بھی اختیار کر رکھی تھی۔
تصویر: AP
سن 2007 : ڈورس لیسنگ
برطانوی لکھاری ڈورس مئے لیسنگ نے ناول، افسانہ نگاری اور ڈرامے جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ 93 برس کی عمر میں انہیں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ انہوں نے جوہری ہتھیاروں اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصیبت کے خلاف ایک مہم چلا رکھی تھی۔
تصویر: AP
سن 2006 : اورھان پاموک
فیرِٹ اورھان پاموک نے بین الاثقافتی تصادم کی کھوج کے لیے نئی علامتیں دریافت کی۔ وہ ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے ترک مصنف تھے۔ ان کی 11 ملین سے زائد کتابیں فروخت ہوئیں اور وہ ترکی کے ’بیسٹ سیلر‘ لکھاری ہیں۔ استنبول میں پیدا ہونے والے پاموک اب نیویارک کی کولمبیا یونیوسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2005 : ہیرالڈ پِنٹر
ہیرالڈ پِنٹر جگر کے سرطان میں مبتلا تھے اور انہیں ان کی وفات سے تین برس قبل ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ سن 2008ء میں کرسمس کی شام کو انتقال کر گئے۔ اس برطانوی فنکار نے کئی ریڈیو اور فلم پروڈکشنز کے لیے کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہدایات بھی دیں اور اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ انہیں مجموعی طور پر 50 ایوارڈز ملے۔
تصویر: Getty Images
سن 2004 : ایلفریڈے ژیلینک
ژیلینک کو ان کے ناولوں میں گنگناتی آوازوں اور ان کی جوابی آوازوں کی اچھوتی تخلیقات پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرنے والے ڈراموں نے بھی انہیں اس اعزاز کا حق دار بنایا۔ ان کی تصنیفات میں بنیادی حیثیت عورت کی جنس کے موضوع کو حاصل رہی ہے۔ ان کا ناول ’پیانو ٹیچر‘ سن 2001ء میں اسی نام سے بننے والی ایک فلم کی بنیاد بھی بنا۔
تصویر: AP
12 تصاویر1 | 12
دوسری طرف سویڈش دفتر استغاثہ نے آرنو کے خلاف عائد کردہ الزامات کے باعث ان کے لیے تین سال کی سزائے قید کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ژاں کلود آرنو کے خلاف مقدمے میں عدالت جو بھی فیصلہ سنائے، سویڈش اکیڈمی کے لیے اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ اسے مستقبل میں بھی ہر سال ادب کے نوبل انعام کے حقداروں کا انتخاب کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
اس سلسلے میں نوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ لارس ہائکَینسٹن نے جمعہ اٹھائیس ستمبر کو ہی کہہ دیا تھا کہ اگر سویڈش اکیڈمی اپنی ساکھ کے بحران سے باہر نکلتے ہوئے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالتی، تو بہتر ہو گا کہ ادب کے نوبل انعام کے حقدار کے انتخاب کی ذمے داری کسی دوسرے ادارے کے سپرد کر دی جائے۔
نوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ممکن ہے کہ اگلے برس یعنی 2019ء میں بھی ادب کے نوبل انعام کا کوئی اعلان نہ کیا جائے۔
یہ امکان سویڈش اکیڈمی کے اب تک کے ان ارادوں کے بالکل برعکس ہے، جن کے مطابق اکیڈمی کا منصوبہ تھا کہ وہ اگلے برس بیک وقت ادب کے دو نوبل انعامات کا اعلان کر دے گی۔ ایک 2018ء کے لیے اور دوسرا 2019ء کے لیے۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
16 تصاویر1 | 16
ژاں کلود آرنو سویڈن میں ایک ایسے بڑے ثقافتی گروپ کے سربراہ ہیں، جس کے سویڈش اکیڈمی کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ ان کے خلاف چھان بین اور سویڈش اکیڈمی کو درپیش بہت بڑے اسکینڈل کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب گزشتہ برس نومبر میں بیک وقت 18 خواتین نے ایک سویڈش اخبار میں آرنو پر یہ الزامات عائد کیے تھے کہ یہ فرانسیسی شہری ان خواتین کے جنسی استحصال کے مرتکب ہوئے تھے۔
ژاں کلود آرنو سویڈش اکیڈمی کی ایک (اب سابقہ) خاتون رکن اور شاعرہ کاتارینا فروسٹَینسن کے شوہر بھی ہیں۔ کاتارینا فروسٹَینسن نے اسی سال اپنے شوہر کی ذات سے متعلق اسکینڈل کے بہت شدت اختیار کر جانے کے بعد اپریل میں سویڈش اکیڈمی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
فروسٹَینسن کے استعفے سے قبل اپریل ہی میں اکیڈمی نے اپنی صفوں میں ’غلط جنسی رویوں‘ کے الزامات کی داخلی چھان بین کے بعد یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ اس باوقار ادارے میں ’ناپسندیدہ جسمانی قربت کی شکل میں ناقابل قبول رویہ‘ دیکھنے میں آیا تھا۔
م م / ع س / اے پی
جرمن بُک پرائز جیتنے والے گیارہ نامور مصنفین
جرمن زبان میں لکھنے والے یہ 11 مصنفین جرمنی کا مؤقر ترین ادبی انعام ’دی جرمن بُک پرائز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ اعزاز فرینکفرٹ کتاب میلے کے دوران جرمن ناشرین اور کتب فروشوں کی ملکی تنظیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/olly
فرانک وِٹسل
ان کے ناول The Invention of the Red Army Faction by a Manic-Depressive Teenager in the Summer of 1969 پر انہیں 2015ء کا جرمن بُک پرائز دیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں پیر 12 اکتوبر کو دیا گیا۔ ان کے ناول میں مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی سرد جنگ کے دور کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گھریلو تشدد اور ماضی سے نبرد آزما ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
لُٹس زائلر
گزشتہ برس لُٹس زائلر کو ان کے ناول ’کرُوسو‘ پر بُک پرائز دیا گیا۔ 2014ء میں یہ ناول دیوار برلن کے انہدام کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس کتاب میں آزادی کی تلاش اور سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے فرار کی کوششوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
ٹیریزیا مورا
مورا کی تصنیف ’دس اُنگیہوئر‘ یا ’دا مونسٹر‘ نے 2013ء کا بُک پرائز جیتا تھا۔ ٹیریزیا مورا ڈائری اور سفرنامے کی شکل میں لکھتی ہیں، جنہیں ایک گہری سیاہ لکیر سے الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق اور ڈپریشن کے حوالے سے طبی خاکے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اُرزُولا کریشَیل
2012ء کا بُک پرائز جیتنے والی اُرزُولا کریشَیل نے جج رچرڈ کورنِٹسر کی زندگی کو اپنے ناول ’ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کا موضوع بنایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یہودی جج کیوبا سے جلاوطنی ختم کر کے جرمنی واپس لوٹا کیونکہ وہ جرمنی میں دوبارہ جج بننا چاہتا تھا۔ مصنفہ نے اپنے اس ناول کے لیے 10 برس تک تحقیق کی۔
تصویر: dapd
اوئگن رُوگے
اوئگن رُوگے کے 2011ء میں لکھے گئے ناول ’اِن ٹائمز آف فےڈِنگ لائٹ‘ کو بُک پرائز دیا گیا۔ اس کتاب میں مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1950ء کی دہائی سے 1989ء میں جرمنی کے اتحاد اور نئی صدی کے آغاز تک کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
میلِنڈا ناج ابونجی
2010ء کا بُک پرائز جیتنے والی ابونجی کی کتاب ’ٹاؤبن فلِیگن آؤف‘ یا ’فلائی اوے، پیجن‘ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تنازعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کی کہانی کو یوگوسلاویہ کے تنازعے اور سربیا کے صوبے ووج وَودینا میں ہنگیرین نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Eisele
کیتھرین شمِٹ
کیتھرین شمِٹ کی 2009ء میں لکھی جانے والی کتاب ’یو آر ناٹ گوئنگ ٹو ڈائی‘ جرمنی کے اتحاد کے دور سے متعلق ہے جب ایک خاتون کومہ سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی یادیں اور بولنے کی صلاحیت واپس حاصل کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
اُووے ٹَیلکامپ
2008ء میں جیوری نے بُک پرائز کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے اتحاد سے قبل کے آخری سالوں سے متعلق ایک ناول ’ڈئر ٹرُم‘ یا ’دا ٹاور‘ کے مصنف کو دیا۔ یہ ناول ڈریسڈن میں رہنے والے ایک خاندان کو درپیش واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ناول پر 2012ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
جُولیا فرانک
2007ء میں بُک پرائز حاصل کرنے والے ناول کا نام Die Mittagsfrau ہے جسے انگریزی میں ’دا بلائنڈ سائیڈ آف دا ہارٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس ناول میں جولیا فرانک نے دو عالمی جنگوں کے دوران کے عرصے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ ناول 34 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Guillem Lopez
کیتھرینا ہاکر
2006ء کا بُک پرائز جیتنے والی کیتھرینا ہاکر نے جوان لوگوں کی کہانیاں Die Habenichtse یعنی ’دا ہیو ناٹس‘ The Have-Nots میں بیان کی ہیں۔ 30 برس کے لگ بھگ عمر کے ایسے لوگوں کی کہانیاں جو اور تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر اپنے آپ کو نہیں۔ ان لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، ان کی اقدار کیا ہیں اور انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ اس ناول کے بنیادی سوالات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.Elsner
آرنو گائیگر
2005ء میں سب سے پہلا جرمن بُک پرائز آرنو گائیگر کو ان کے ناول ’اَیس گیہت اُنس گُٹ‘ یعنی ’وی آر ڈوئنگ وَیل‘ پر دیا گیا۔ اس ناول کی کہانی ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں کے گرد گھومتی ہے۔