جنسی مقاصد کے لیے سیاحت: جب ضمیر بھی چھٹی پر چلا جائے
9 اگست 2022
بہت سے سیاح اپنے لیے شہوت سے بھرپور جنسی سرگرمیوں کے خواہش مند ہوتے ہیں اور ان کے لیے مالی ادائیگیوں پر تیار بھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی مشہور سیاحتی منازل اس رجحان کے تدارک اور روک تھام سے ہچکچاتی ہیں۔
اشتہار
ہسپانوی جزیرے مایورکا کے مشہور ترین سیاحتی علاقے پلایا دے پالما پر جب رات پڑتی ہے، تو ہر طرف شبینہ جسم فروشی جیسے مردہ سے یکدم دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔ ساحل سمندر سے محض چند سو میٹر دور بہت سی خواتین، جن کی اکثریت کا تعلق نائجیریا سے ہوتا ہے، سرعام اپنی جنسی خدمات پیش کرتی اور دعوت عمل دیتی نظر آتی ہیں۔ ان کے تقریباﹰ تمام ہی گاہک وہاں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے سیاح ہوتے ہیں۔
اسپین کے اس جزیرے پر سیکس ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم طبی امدادی تنظیم میڈیکوس ڈیل مُونڈو کے عہدیدار روسیو لوپیز کہتے ہیں، ''مایورکا میں جسم فروشی کی طلب میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہاں آنے والے سیاح ہیں۔‘‘ موسم گرما میں، جب اس ہسپانوی جزیرے پر سیاحتی تعطیلاتی سیزن عروج پر ہوتا ہے، وہاں جسم فروشی کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد اکثر دو گنا ہو جاتی ہے۔
سیاحوں کے لیے پرکشش ریڈ لائٹ ایریاز
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکس ٹورازم ایک ایسا پیچیدہ اور متنوع مسئلہ ہے، جو ہر ملک میں پایا جاتا ہے اور جس کا ہر معاشرے کو سامنا ہے۔ یہ مسئلہ مایورکا میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، امریکہ میں بھی اور ڈومینیکن ریپبلک جیسے ممالک میں بھی۔
’دنیا بھر کے لیے روٹی‘ نامی امدادی تنظیم کے ایک اسپیشلسٹ یونٹ سے تعلق رکھنے والی آنٹیے مون ہاؤزن کہتی ہیں، ''جنسی مہم جوئی بے شمار انسانوں کے سیاحتی سفر کے پیچھے کار فرما اصل محرک ہوتی ہے۔ یہ بات یوں بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم کا ریڈ لائٹ ایریا اگر دنیا بھر میں مشہور ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہاں جانے والے سیاحوں کے لیے بہت زیادہ کشش کا حامل بن چکا ہے۔‘‘
صرف اسپین میں ہی جسم فروشی سالانہ تقریباﹰ ایک بلین ڈالر کی آمدنی والا پیشہ ہے اور ملک بھر میں بیسیوں ہزار جسم فروش انسان اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ اسپین میں اس پیشے سے غیر قانونی طور پر وابستہ انسانوں کی اصل تعداد کتنی ہے، جن کی سرگرمیاں بہرحال کسی بھی قانون کے دائرے میں نہیں آتیں۔
یورپ میں جسم فروشی پر مجبور خواتین کی مدد کرنے، انہیں اس پیشے سے باہر نکالنے اور ان کی سماجی بحالی کے لیے سرگرم ایک بڑی تنظیم کا نام ایپرامپ (APRAMP) ہے، جس کا کہنا ہے کہ پورے یورپ میں غیر قانونی جسم فروشی کہیں اتتی زیادہ نہیں ہوتی جتنی اسپین میں۔ ایک المناک سچ یہ بھی ہے کہ جیسا کہ مایورکا میں جسم فروشی کی صورت حال سے واضح ہے، اسپین دنیا بھر میں تھائی لینڈ اور پورٹو ریکو کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے، جہاں جسم فروشی کے پیشے کا سیاحت سے گہرا تعلق ہے۔
Bread for the World نامی امدادی تنظیم کے اسپیشل یونٹ ٹورازم واچ کی عہدیدار آنٹیے مون ہاؤزن کہتی ہیں، ''ایسی صورت حال میں بالعموم کوئی سوشل کنٹرول نہیں ہوتا۔ لوگ بہت زیادہ شراب نوشی کرتے ہیں اور تعطیلاتی سیاحت کے دوران من مانی کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی روزمرہ کی مصروفیات سے فرار کے خواہش مند سیاح کسی بھی طرح کے مروجہ سماجی رویوں کے عملاﹰ قائل نہیں ہوتے۔ پھر مقامی آبادی اور سیاحوں کی مالی حیثیت کے مابین اقتصادی خلیج بھی مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح سیاح اپنی سیاحتی منزلوں پر وہاں رہنے والے مقامی رہائشیوں کا مالی استحصال بھی کرتے ہیں، جو انتہائی غیر اخلاقی بات ہے۔‘‘
اس استحصال کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسپین کے جزیرے مایورکا میں پولیس نے حال ہی میں پلایا دے پالما میں سڑکوں پر جسم فروشی کی روک تھام کے لیے کارروائی کی تو ساتھ ہی انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف بھی چھاپے مارے گئے۔ اس دوران پتہ یہ چلا کہ ایسے گروہ بیرون ملک سے خواتین کو مختلف ملازمتیں دینے کے بہانے پہلے اسپین لاتے ہیں اور پھر ان کے ذمے ہزاروں یورو کے قرض کی واپسی کے لیے انہیں جسم فروشی پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اشتہار
پچانوے فیصد جسم فروش خواتین رہائشی پرمٹوں کے بغیر
امدادی تنظیم میڈیکوس ڈیل مُونڈو کے مطابق اسپین میں 95 فیصد جسم فروش بیرون ملک سے آئی ہوئی ایسی تارکین وطن خواتین ہوتی ہیں، جن کے پاس اسپین میں رہائش کا سرکاری اجازت نامہ تک نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں کوئی دوسرا اور قانونی طور پر جائز کام بھی نہیں کر سکتیں۔ ایسی خواتین ان جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی ہیں، جو پھر ان سے جبراﹰ پیشہ کرواتے ہیں۔
میڈیکوس ڈیل مُونڈو کے روسیو لوپیز کہتے ہیں، ''کہا جاتا ہے کہ یہ کام کرنا اس پیشے سے وابستہ عورتوں کا اپنا ذاتی اور آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ ایک کہانی۔ اس لیے کہ آزادانہ اور خوشی سے کیا گیا ذاتی انتخاب تو تب ہو، جب ان عورتوں کے پاس سرے کوئی دوسرا فیصلہ کر سکنے کا کوئی امکان بھی ہو۔‘‘
نابالغ بچوں کو درپیش خطرات
سیکس ٹورازم اس وقت اور بھی شدید مسئلہ بن جاتا ہے، جب اس میں نابالغ بچوں کا جنسی استحصال بھی شامل ہو جائے اور ایسا دنیا کے بہت سے ممالک میں ہوتا ہے۔ بچوں کی امدادی تنظیم ای سی پی اے ٹی کی عہدیدار جوزفین ہامان کے مطابق یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں، جس کی وجہ صرف بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے عادی مجرم بنتے ہوں۔
وہ کہتی ہیں، ''تعطیلاتی سفر کرنے والے سیاحوں میں سے بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے، جو موقع ملنے پر بچوں کا جنسی استحصال کرنے پر بھی آمادہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان حالات میں کہ جب وہ اپنے وطن میں نہ ہوں اور ان کی شناخت بھی خفیہ رہے۔ اس صورت حال میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔ بہت سے گھرانوں کی مالی حالت ابتر ہوئی ہے، بے روزگاری زیادہ ہوئی ہے۔ تو ان گھروں کی عورتیں اور بچے بھی مجبوراﹰ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگنے کے بعد جسم فروشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ سب سے المناک بات یہ کہ اب بچوں کے جنسی استحصال کے خطرات بہت زیادہ ہو گئے ہیں، خاص طور پر مشہور سیاحتی علاقوں اور شہروں میں۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
11 تصاویر1 | 11
آنٹیے مون ہاؤزن کے بقول، ''افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ شاید ہی کوئی متاثرہ ملک ایسا ہو، جو اپنے ہاں نابالغ بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے سے باخبر ہونے کے باوجود اسے حل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو۔ کوئی بھی اس مسئلے کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘
نئی قانون سازی کا امکان
ہسپانوی جزیرے مایورکا پر جسم فروشی ایک ایسا موضوع ہے، جس کے بارے میں بہت ہی کم بات کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود پلایا دے پالما میں خواتین کے برہنہ رقص والی کئی بارز اور دوسری کلبس ایسی ہیں، جہاں گاہکوں کو کھلے عام جسم فروشی کی دعوت دی جاتی ہے۔ پولیس سڑکوں پر جسم فروشی کرنے والے خواتین کو بھی کبھی کبھار ہی چیک کرتی ہے۔ روسیو لوپیز کہتے ہیں، ''اس بارے میں عوامی شعور میں اضافے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، خاص طور پر سیاحوں کے حوالے سے۔‘‘
روسیو لوپیز نے تاہم ایک ممکنہ امید افزا پیش رفت کا ذکر بھی کیا، ''ممکن ہے یہ تکلیف دہ صورت حال مستقبل میں قطعی بدل جائے۔ اس لیے کہ اسپین کی مرکزی حکومت ملکی فوج داری قوانین میں مزید سختی لانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا، تو مستقبل میں سیکس ورکروں سے مالی ادائیگیوں کے عوض ان کی سروسز خریدنے والے گاہکوں کو بہت بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا ہو گا۔‘‘
م م / ع ا (جوناس مارٹینی)
بنگلہ دیش میں جسم فروشی
بنگلہ دیش میں 2000ء سے جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی ملک میں جبری جسم فروشی انتہائی تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
جبری جسم فروشی
بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو کم عمری میں جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں آباد بہت سے غریب خاندان 20 ہزار ٹکوں کے عوض اپنی لڑکیوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان لڑکے شادی کا لالچ دے کر لڑکیوں کو اس دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
پرکشش بنانے والی ’ادویات‘ کا استعمال
جسم فروش لڑکیاں اکثر پرکشش دکھائی دینے کے لیے مخصوص دوائیں (اوراڈیکسن) استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ صحت مند دکھائی دیں اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ ایسی ہی دوائیں کسان اپنے مویشیوں کو موٹا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق طویل عرصے تک اوراڈیکسن کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
دوا کے بجائے ٹیکے
اوراڈیکسن کم عمر بالخصوص بارہ سے چودہ برس کی عمر کی لڑکیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایک قحبہ خانے کی مالکن رقیہ کا کہنا ہے کہ جواں سال جسم فروشوں کے لیے ٹیکے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
ادویات کا وسیع تر استعمال
غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی تقریباﹰ نوّے فیصد لڑکیاں اوراڈیکسن استعمال کرتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر والی جسم فروش خواتین میں بہت مقبول ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباﹰ دو لاکھ لڑکیاں جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
قحبہ خانوں میں مہم
ایکشن ایڈ نے جسم فروشوں کو اوراڈیکسن کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے قحبہ خانوں میں ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوائی کی عادی خواتیں کو مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے ایک کارکن کے مطابق یہ دوا استعمال کرنے والی عورتوں کا وزن تو تیزی سے بڑھ ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور سر میں درد کی شکایت بھی رہنے لگتی ہے۔
تصویر: GMB Akash
ایچ آئی وی انفیکشن
بنگلہ دیش کے مقامی اخبار جسم فروشوں کے ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی خبریں اکثر شائع کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ جسم فروش عورتوں کے مطابق ان کے اکثر گاہک کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تصویر: AP
جسم فروشی کے لیے بچوں کا استعمال
بنگلہ دیش میں یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے 2004ء کے ایک اندازے کے مطابق وہاں دس ہزار کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 29 ہزار ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
اسلام پسندوں کے حملے
گزشتہ برس اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش کے ایک جنوبی علاقے میں ایک قحبہ خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ تقریبا پانچ سو افراد بے گھر ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں جسم فروشی کے مراکز پر ایسے حملے معمول کی بات ہیں۔