1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی افریقہ میں صابری چشتی ایمبولینس سروس کا کردار

27 جنوری 2021

مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔

Südafrika | Muslimische Bestattungen während Corona-Krise
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance

میت کو غسل دینے والے شخص نے کورونا وائرس کے خطرے کے باعث حفاظتی لباس پہن رکھا ہے لیکن اس کے باوجود میت کا احترام وہاں کیے جانے والے انتظامات سے عیاں ہوتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی مسلم کمیونٹی نے دارالحکومت جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقے لیناسیا میں خصوصی غسل خانے قائم کیے ہیں، جہاں کورونا وائرس کے باعث وفات پا جانے والوں کو غسل دیا جاتا ہے۔ جوہانسبرگ کے مضافات میں تقریباﹰ ایک لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ جنوبی افریقہ کی تقریباﹰ اسی فیصد آبادی مسیحی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اس ملک کی بڑی اقلیتوں میں ہندو، مسلمان اور یہودی شامل ہیں۔

تیس برس قبل قائم کی گئی ایمبولینس سروس

ساؤتھ افریقہ میں تقریباﹰ تیس برس قبل عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا گیا تھا۔ لیکن اب اس سروس کا دائرہ کار وسیع ہو چکا ہے۔ اب کورونا کے مریضوں کو نا صرف ان کے گھروں پر ہی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ شدید بیمار مریضوں کو آکسیجن بھی مہیا کی جاتی ہے۔

جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں اب مسلمانوں کی تدفین کے لیے میت کے غسل سے لے کر اس کی تدفین تک کا عمل یہی تنظیم انجام دے رہی ہے۔ بھارت کی دو مذہبی شخصیات کے نام پر بنائی جانے والی صابری چشتی سوسائٹی کے بیالیس سالہ چیئرمین ابوبکر سید کا کہنا تھا، ''جب ہم نے دوسرے ملکوں کی ایسی خبریں دیکھیں کہ بڑے پیمانے پر اموات ہو رہی ہیں اور میتوں کی تدفین کا مسئلہ ہے، تو ہم نے خود سے یہ سوال کیا کہ آیا ہم ایسی کسی صورتحال کے لیے تیار ہیں؟‘‘

محفوظ تدفین کا مسئلہ

اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر غیر مسلم آبادی والے ممالک میں آباد مسلمانوں کو تدفین کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم ساؤتھ افریقہ کی صابری چشتی کمیونٹی اس مسئلے کے حل کے لیے انتہائی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کو مقامی طبی حکام کا تعاون بھی حاصل ہے تاکہ محفوظ تدفین کو ممکن بنایا جا سکے۔

ابوبکر سید کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں معلوم ہوا کہ اسلامی طریقے سے تدفین بھی کی جا سکتی ہے اور طبی سائنسی قوانین کی پاسداری بھی ممکن ہے۔ ہمارے آئمہ نے رضاکاروں کو تربیت فراہم کی۔ نوجوان اس میں پیش پیش تھے کیوں کہ انہیں بزرگوں کی نسبت کورونا وائرس کا کم خطرہ ہے اور اس طرح علم بھی اگلی نسل تک منتقل ہو رہا ہے۔‘‘ اب صابری چشتی کمیونٹی اس حوالے سے ساؤتھ افریقہ کے کیپ ٹاؤن جیسے دیگر شہروں میں آباد مسلمانوں کو بھی تربیت فراہم کر رہی ہے۔

یہ سوسائٹی اب تک کورونا سے متاثرہ 180 افراد کی تدفین کر چکی ہے جبکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قبرستان میں پہلے ہی قبریں کھودی گئی ہیں۔ اب کئی دیگر مقامی تنظیمیں بھی صابری چشتی سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ہلکی علامات والے کورونا کے مریضوں کو ان کے گھروں پر ہی علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

دیگر مذاہب کے لیے سروس

ساؤتھ افریقہ میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور اب وہاں مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ آج کل اس تنظیم کی ایمبولینس سروس روزانہ  کووڈ انیس کے اوسطاﹰ چودہ مریضوں کو ہسپتال منتقل کر رہی ہے۔ یہ سروس اب لیناسیا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے تمام رہائشیوں کو بلاامتیاز فراہم کی جا رہی ہے۔

ابوبکر سید کے مطابق یہ غریب علاقہ ہے اور لوگوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد سے کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ ساؤتھ افریقہ کی ساٹھ ملین کی آبادی میں سے اب تک تقریباﹰ چودہ لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں نئے مریضوں کے لیے گنجائش کم ہے۔

اس مسلم تنظیم کے ستر سے زائد رضاکار ان گھرانوں میں راشن بھی تقسیم کر رہے ہیں، جہاں کورونا وائرس کے مریض ہیں اور گھر والوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ابوبکر سید کہتے ہیں، ''ہم سب کورونا وائرس کے خطرے سے آگاہ ہیں، جدا ہو جانے کا خوف ہے۔ لیکن اس بیماری نے ہماری کمیونٹی کو مزید متحد کر دیا ہے۔ لوگ آگے بڑھے ہیں اور ایک دوسرے کی اس طرح مدد کر رہے ہیں، جس کی ماضی میں تو کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘

ا ا / م م (اے اپی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں