جنوبی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی، نئے عسکری حربے
3 جون 2016نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق افغانستان میں طالبان جنگجو اپنی حکمت عملی تبدیل کر چکے ہیں اور نئے جنگی حربوں کی وجہ سے پیش قدمی کرتے جا رہے ہیں۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق پہلے طالبان فوجی چوکیوں پر حملے کرتے ہیں، پھر وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے اور ان کے ہتھیاروں پر قبضے کے بعد مؤثر انداز میں دور دراز کے دیہات کو جانے والا مرکزی سپلائی روٹ کاٹ دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد طالبان قبضہ کی گئی فوجی چوکی پر ایک سفید رنگ کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں۔ یوں ہر اس گاڑی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جو وہاں سے گزرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے بعد طالبان ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس طرح متاثرہ علاقوں میں بنیادی اشیائے خوراک کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور قمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ اس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ دیہاتی ان علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دیتے ہیں، جہاں کم از کم کھانے پینے کی اشیاء موجود ہوں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کا یہ نیا جنگی حربہ انتہائی سادہ ہے اور اس طرح وہ بغیر کسی لڑائی کے یا پھر کسی پورے گاؤں پر حملہ کیے بغیر اس پر آسانی سے قبضہ کر لیتے ہیں۔ افغان اور امریکی سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق اس وقت طالبان اپنی زیادہ تر توجہ جنوبی افغان صوبوں ہلمند، قندھار اور ارزگان پر مرکوز کیے ہوئے ہیں جبکہ شمالی صوبے قندوز کے مضافات میں بھی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
جنوب میں اس وقت صوبہ ارزگان میں حکومتی دستوں پر دباؤ شدید ہو چکا ہے۔ امریکی فورسز کے ایک ترجمان جنرل چارلس کلیولینڈ کا کہنا تھا کہ اس صوبے کے دارالحکومت ترین کوٹ کے مضافات میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران طالبان کے حملے شدید ہو گئے ہیں۔
ارزگان صوبائی کونسل کے ڈائریکٹر عبدالحکیم خادمزئی کا کہنا تھا، ’’گزشتہ پندرہ برسوں میں آج کی صورتحال بدترین ہے۔‘‘ خادمزئی کے مطابق صرف مئی کے مہینے میں ارزگان میں دو سو افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ تین سو کے قریب زخمی ہوئے، ’’ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ہماری فورسز پیچھے ہٹتی جا رہی ہیں اور ہر دن طالبان کا کنٹرول مزید علاقوں تک بڑھتا جا رہا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز اپنی بہترین کوششیں کر رہی ہیں لیکن ہمیں رسد کی فراہمی وقت پر نہیں ہو رہی۔‘‘
ارزگان کے مقامی رہائشیوں کے مطابق ترین کوٹ اور قندھار کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر طالبان مارچ کے مہینے سے قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
خادمزئی کے مطابق، ’’ترین کوٹ اب ایک ایسا جزیرہ بن چکا ہے، جس کا کنٹرول صرف حکومت کے پاس ہے اور یہ باقی صوبے سے کٹ چکا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ اے پی نے لکھا ہے کہ ارزگان کے رہائشیوں کے لیے کابل انتہائی دور کا علاقہ بن چکا ہے اور وہاں کوئی بھی ان کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے۔
خادمزئی کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وہ دن شاید دور نہیں جب حکومت کو یہ احساس ہو گا اور حکومتی فورسز اس علاقے پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوشش کریں گی۔ لیکن اس وقت ان کو یہ پتہ چلے گا کہ مقامی لوگ طالبان کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔‘‘