جنوبی ایشیاء اور جرمن پریس
20 ستمبر 2010اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung تحرير کرتاہے کہ پاکستان ايک گڑھے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پچھلے عشروں کے دوران ملک پر فوجی آمروں اور جمہوری طور پر منتخب ہونے والے سياستدانوں نے بار بار حکومت کی ہے، پاکستان سياسی طور سے منتشر اور اخلاقی لحاظ سے پست ترين نقطے کی طرف بڑھا ہے۔ دور دور تک کوئی نظر نہيں آتا جس سے بہتر مستقبل کی اميد بندھتی ہو۔ ملک کو جو نمائندے بھی ميسر آئے ہيں، اُن کے ساتھ حالات کو بہتر بنانے کی کوششيں ہر بارناکام ہی ثابت ہوئی ہيں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اتحادی سمجھی جانے والی اور اس حوالے سے بھاری رقوم وصول کرنے والی حکومت ميں ايک ايسی پارٹی شامل ہے جو شدت پسندوں ميں مقبول ہے۔ فوج، جو غير ممالک ميں سيکولرازم يا لادينيت کی محافظ سمجی جاتی ہے، خود اپنی صفوں ميں اسلامی بغاوت کے لئے ہمدردياں محسوس کر رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے خطرناک زوال کی وجہ صرف کرپشن اور شدت پسندوں ہی کو قرار نہيں ديا جا سکتا بلکہ اس کی وجہ بيرونی طاقتوں کے مفادات بھی ہيں۔ چين پاکستان کی سرزمين پر اپنے جغرافيائی حربی منصوبوں کے ايک مرکزی حصے کو عملی شکل دينا چاہتا ہے اور وہ بحيرہء عرب ميں گوادر کے ساحل تک ايک راستہ بنانا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی پاکستان ميں اثر رکھنے والے پڑوسی ممالک ميں خوف کے ساتھ ساتھ اس ملک ميں مداخلت کی رغبت بھی پيدا ہوتی ہے۔ سعودی عرب جو دنيا بھر ميں اسلامی افکار کے فروغ ميں مصروف ہے، پاکستان ميں بھی ايک وہابی علمی انقلاب لانا چاہتا ہے اور وہ آزاد خيال صوفی نظريات کو پيچھے دھکيل رہا ہے۔ اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی سنی انتہا پسندی ملک کے شيعوں کے بھی خلاف ہے جنہيں ايران مدد دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت بھی کشمير ميں فوجی طاقت کے مظاہروں اور پاکستان ميں اُس کی آبی فراہمی پر حملہ سمجھے جانے والے نئے دريائی بند تعمير کرنے کے منصوبوں کے ذريعے پاکستانيوں کے گرد ايک ذہنی حصار بنائے ہوئے ہے۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرويز مشرف لندن ميں مقيم ہيں۔ وہ جلاوطن ہیں ليکن معلوم يہ ہوتا ہے کہ وہ وطن واپسی کی بھر پور کوششوں ميں مصروف ہيں۔ وہ جلد ہی اپنی ايک پارٹی بنانا چاہتے ہيں اور سن 2013 ميں ہونے والے انتخابات ميں پارليمانی نشست کے لئے انتخابات میں حصہ لينا چاہتے ہيں۔67 سالہ مشرف نے يہ بات بی بی سی کو ايک انٹرويو ميں بتائی۔ اخبار Tageszeitung لکھتا ہے کہ اُن کے يہ ارادے پہلی نظر ميں مضحکہ خيز معلوم ہوتے ہيں ليکن جو بات اُن کے حق ميں جاتی ہے وہ يہ ہے کہ پيپلز پارٹی کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی مايوس کن ہے۔ مشرف کے دور کے خاتمے کے صرف دو سال بعد ہی سياستدانوں سے بيزاری خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے، جنہيں بہت سے لوگ کرپٹ اور نا اہل سمجھتے ہيں۔ خاص طور پر صدر زرداری نے پاکستان کے شديد ترين سيلاب کے دوران ملک ميں رہتے ہوئے صورتحال پر توجہ دينے کے بجائے يورپ کا دورہ کر کے خود کو عوام کی بچی کچھی ہمدرديوں سے بھی محروم کر ليا ہے۔ اس کے برعکس فوج نے عوام کی اتنی زيادہ ہمدردياں حاصل کرلی ہيں جو اسے پچھلے کئی برسوں ميں نہيں مل سکی تھيں۔ اُس نے سيلاب زدگان کی مدد کے لئے ہزاروں فوجی فراہم کئے جنہوں نے لوگوں کو ڈوبنے سے بچايا، امدادی اشياء تقسيم کيں اور پناہ گزينوں کے کيمپوں کا انتظام کيا۔ سياستدانوں کی نالائقی پر غيض و غضب اب اس قدر زيادہ بڑھ گيا ہے کہ متوسط طبقہ بھی فوج کے دوبارہ حکومت سنبھالنے کی صدا لگا رہا ہے۔
لندن ميں متحدہ قومی موومنٹ کے ايک سابق سياستدان کے قتل پر کراچی ميں خونيں ہنگامے ہوئے ہيں۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے:
ايم کيو ايم کو کراچی ميں مکمل طاقت حاصل ہے اور وہ اسے قائم رکھنے کے لئے اپنے مسلسل زيادہ پراعتماد ہوتے ہوئے حريف اے اين پی سے مقابلے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہی ہے، جو کراچی کی مسلسل بڑھتی ہوئی پشتون آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ ايم کيو ايم اور اُس کے حاميوں کے لئے پشتون اس وجہ سے خطرناک ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ ان ميں سياسی شعور مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ليکن يہ مسئلہ صرف سياسی شعور ہی کا نہيں بلکہ زمين کا بھی ہے جو کراچی ميں ناياب شے ہے۔ دونوں پارٹيوں کے جرائم پيشہ افراد اور سرکاری اہلکار اور عہديدار اس زمين کی تاک ميں لگے رہتے ہيں اور وہ کراچی ميں اراضی کی مافيا کہلاتے ہيں۔ جہاں تک کراچی ميں ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ ہے تو فريقين ميں اس حوالے سے بھی شديد بد گمانی پائی جاتی ہے۔ بعض سياسی رہنماؤں کو پوليس کے فراہم کردہ باڈی گارڈز تک پر بھروسہ نہيں کيونکہ پوليس کو بکاؤ سمجھا جاتا ہے۔ پشتون رہنما شاہی سيد صرف ايک رياستی ادارے ہی کو مؤثر کارروائی کا اہل سمجھتے ہيں۔ اس سے مراد فوج ہے، جس نے سن 1980 کے عشرے ميں بھی پشتونوں اور مہاجروں کے درميان خونريز تصادم کا خاتمہ کيا تھا۔ بہت سے دوسروں کا بھی يہی خيال ہے۔ کراچی کے حالات پر قابو پانا پوليس کے بس کی بات معلوم نہيں ہوتی۔
ہفت رورہ Der Spiegel جون سے بھارتی زير انتظام کشمير ميں جاری ہنگاموں کے بارے ميں لکھتا ہے کہ کشميريوں کی نوجوان نسل سڑکوں پر تلاشيوں، گھروں کی تلاشی اور عوام کے ساتھ پوليس اور فوج کے درشت رويے کے ماحول ميں پلی بڑھی ہے۔ يہ نسل اب مزاحمت کر رہی ہے اور وہ ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کے ذريعے بھی اپنی شنوائی چاہتی ہے۔ پوليس اور فوج ميں بھی يہ خوف پايا جاتا ہے کہ اُن پر کسی وقت بھی حملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے وہ کوئی لحاظ کئے بغير کارروائی کرتے ہيں۔
دہلی ميں کئی حکومتيں کشميريوں سے بات چيت کے ذريعے مسئلے کا کوئی حل نکالنے کی کوشش ميں ناکام رہی ہيں کيونکہ سياسی رہنما اس کے ساتھ ہی ساتھ يہ منتر بھی پڑھتے رہتے ہيں کہ کشمير بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اس بارے ميں کسی قسم کی رعايتيں نہيں دی جا سکتيں۔ حالات سنگين طور پر بگڑنے کے بعد نئے منصوبے تو ميز پر آتے ہیں ليکن کوئی ٹھوس قدم اٹھايا نہيں جاتا۔
تحریر: آنا لیہمان / شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک