جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
28 دسمبر 2009اخبار فنانشل ٹائمز جرمنی نے اپنے ایک تفصیلی مضمون میں لکھا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اعلیٰ ترین ملکی عدالت نے NRO کہلانے والے اس قومی مصالحتی آرڈینینس کے خلاف فیصلہ دے دیا جس کے تحت قریب آٹھ ہزار سرکردہ سیاسی اور سماجی شخصیات کو مختلف الزامات میں اپنے خلاف عدالتی کارروائی سے تحفظ مل گیا تھا۔ ان میں اعلیٰ ریاستی عہدوں پر فائز بہت سے ایسے پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جو نوے کے عشرے میں بدعنوانی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق NRO کی منسوخی ایسے وقت میں عمل میں آئی کہ اس نے پاکستان کی سیاسی قیادت کو اور بھی کمزور کر دیا ہے، حالانکہ ایٹمی طاقت کے حامل اس ملک میں حالات تو پہلے ہی ایسے تھے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کے داخلی انتشار کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔
پاکستان میں سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کے بارے میں برلن سے شائع ہونے والے روزنامے Berliner Zeitung نےلکھا کہ قومی مصالحت کے نام پر ہزاروں شخصیات کے لئے معافی کے ضامن اس آرڈیننس کی منسوخی بظاہر یہ واضح کر دیتی ہے کہ انصاف کو دیر سے حاصل ہونے والی فتح کیسی نظر آتی ہے۔
بھارت کے بارے میں برلن ہی کے اخبار Tageszeitung نےہندو قوم پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی قیادت میں تبدیلی کے حوالے سے اپنے ایک تفصیلی مضمون پر سرخی یہ لگائی کہ BJP کی قیادت میں نئی نسل سامنے آ گئی ہے۔ اخبار کے مطابق ستاون سالہ سشما سوراج نئی دہلی کی پارلیمان میں BJP کے حزب کی سربراہ بن گئی ہیں، اور یوں ملک کی پہلی خاتون قائد حزب اختلاف بھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نئے سربراہ باون سالہ نیتن گاڈ کاری ہیں جو اب تک ممبئی میں اس پارٹی کے سربراہ تھے۔ Tageszeitung کے مطابق BJP کی لیڈرشپ میں یہ تبدیلی اپنے پس منظر میں یہ حقیقت بھی لئے ہوئے ہے کہ اس جماعت کو جمہوری دنیا میں کسی بھی پارٹی کے زوال کے حوالے سے انتہائی حیران کن تنزلی کا سامنا ہے۔
پانچ سال قبل کرسمس کے ایک روز بعد آنے والے تباہ کن سونامی طوفان کے بارے میں بہت سے جرمن اخبارات اور جرائد نے تفصیلی مضامین شائع کئے۔ میونخ سے چھپنے والے روزنامے Süddeutsche Zeitung نے لکھا کہ سونامی کے ہاتھوں دو لاکھ 30 ہزار انسان ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے 45 ہزار صرف سری لنکا میں مارے گئے۔ سونامی کی تباہ کاریوں کے پانچ سال بعد جنوبی سری لنکا میں تعمیر نو کا کام آج بھی جاری ہے۔ لیکن ریاستی مالی وسائل اب ترجیحی بنیادوں پر ضرورت مند شہریوں کو نہیں دئے جا رہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں ایسے رہائشی، تفریحی اور تعمیراتی منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں جن کا طویل المدتی بنیادوں پر مقصد زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سیاحوں کو جنوبی سری لنکا آنے کی ترغیب دینا ہے۔
تحریر: آنا لیہمن / مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق