’’جنوبی ایشیا اور جرمن پریس‘‘
18 اپریل 2010گزشتہ ہفتے پاکستان کی قومی اسمبلی نے آئين ميں ايک جامع ترميم کی منظوری دے دی، جس کے نتيجے ميں صدر کا عہدہ اپنی پرانی، نمائندہ حيثيت تک محدود ہو گيا ہے۔ اس کے برعکس، پارليمنٹ اور وزيراعظم يوسف رضا گيلانی کو زیادہ اختيارات حاصل ہوگئے ہيں۔ اخبار ’فائنینشل ٹائمز ڈوئچ لینڈ‘ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:’’اس آئينی ترميم سے پاکستان کے سياسی نظام ميں طاقت کی تقسيم ميں ايک ڈرامائی تبديلی ہوئی ہے۔ سابق حکمران جنرل پرويز مشرف کے دور ميں صدر کے اختيارات ميں بہت اضافہ کرديا گيا تھا۔ اب، خصوصاً آصف علی زرداری کے سياسی مستقبل کا معاملہ ہے۔ آئينی ترميم کے بعد اب صدر کو اسمبلی توڑنے، وزير اعظم کو برطرف کرنے اور فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے اختيارات حاصل نہيں رہے ہيں۔ اس وقت زرداری کو صدر کی حيثنت سے عدالتی کارروائی کے خلاف تحفظ حاصل ہے، ليکن اُن کے سب سے بڑے سياسی حريف اور سابق وزيراعظم نواز شريف بھر پور کوشش کررہے ہيں کہ زرداری کا يہ تحفظ بھی ختم کرديا جائے۔ اس طرح آئينی ترميم کے ساتھ نواز شريف بھی اپنے ہدف کے مزید قريب آگئے ہيں۔‘‘
واشنگٹن ميں، جوہری سلامتی کے موضوع پر ہونے والی عالمی سربراہی کانفرنس، ايٹمی ہتھیار بنانے کے قابل جوہری مواد کے پھيلنے کی روک تھام کے عمومی وعدوں کے اعلان کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ اس کانفرنس کے موقع پر دوايٹمی طاقتوں، پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات بھی ہوئی، جس ميں سرد مہری کی فضا چھائی رہی کيونکہ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف پاکستان کے مؤثر اقدامات کے بغير مذاکرات نہيں چاہتا۔ اخبار ’فرانکفرٹر الگیمائنے زائٹنگ‘ اس موضوع پر لکھتا ہے:’’جنوبی ايشيا ميں جوہری ہتھياروں کی دوڑ کا مسئلہ سياسی لحاظ سے اس قدر متنازعہ ہے کہ اُسے باضابطہ طور پر بات چيت کے ايجنڈے ميں جگہ نہيں دی جا سکتی۔ يہ، امريکی اخبار ’نيويارک ٹائمز‘ کی رائے ہے۔ جنوبی ايشيا کی، جوہری سياست کے حقائق اُس منطق سے آزاد ہيں جس سے اوباما، کانفرنس کے شرکاء کو قائل کرنا چاہتے تھے۔ دونوں ممالک اپنے ايٹمی اسلحہ خانے ميں اضافہ کررہے ہيں اور ايٹمی ہتھیاروں کے عدم پھيلاؤ کے معاہدے ’اين پی ٹی‘ کے لئے اُن کے پاس صرف مخالفانہ الفاظ ہی ہيں۔ اُن کے خلاف پابنديوں کی سياست بھی کامياب ثابت نہيں ہوسکی۔ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستان کا کردار اتنا اہم ہے کہ اس ملک کو تنہا نہيں کيا جا سکتا۔ ايک بڑی طاقت بننے کے راستے پر گامزن بھارت کو توامريکہ کے ساتھ اُس کے جوہری معاہدے کے ذريعے،عملی طور پر ايک تسليم شدہ ايٹمی طاقت کا درجہ ديا جا چکا ہے۔‘‘
اخبار ’فائنینشل ٹائمز ڈوئچ لینڈ‘ تحرير کرتا ہے کہ بھارت نے حسب سابق تمام امکانات کھلے رکھے ہيں۔ بھارت کا موٴقف يہ ہے کہ جوہری اسلحے کے عدم پھيلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے والا خود ہی قصور وار ہے۔ بھارت، امريکی صدر اوباما کی اس تجويز پر کہ بھارت ’اين پی ٹی‘ معاہدے پر دستخط کردے، پس و پيش سے کام لے رہا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ پہلے اوباما امريکی جوہری فضلے کی بھارت ميں ’ری پراسيسنگ‘ کے معاہدے کو امريکی سينيٹ سے منظور کرائيں۔ اس وقت بھارت ايران سے پاکستان گيس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کا جائزہ لينے ميں مصروف ہے، حالانکہ امريکہ اس سے مسلسل درخواست کررہا ہے کہ وہ اس سے اجتناب کرے۔
فرانسيسی اخبارDiplomatique Le Monde کی جرمن اشاعت بحران ميں بھارتی معيشت کو ايک مختلف انداز سے ديکھتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے:’’عالمی مالیاتی بحران کے آغاز پر يہ خيال پايا جاتا تھا کہ بھارت صرف اسی وجہ سے بھی اس بحران سے زيادہ متاثر نہيں ہوگا کيونکہ اس کی معيشت، عالمی اقتصاديت سے اتنی زيادہ منسلک نہيں ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی داخلی منڈی بھی مستحکم ہے، ليکن يہ نظريہ غلط ثابت ہوا ہے۔ يہ صحيح ہے کہ بھارت کی مجموعی قومی پيداوار ميں کمی نہيں ہوئی بلکہ اُس ميں صرف سست رفتار سے اضافہ ہوا تاہم، خصوصاً اُس کی برآمداتی صنعت ميں روزگار کے مواقع ميں کمی ہوئی۔ صرف سن 2009 ء ہی ميں بھارتی برآمدات ميں 20 فيصد کی کمی ہوگئی۔ اُس کی زراعت پر عالمی مالی بحران کا شديد اثر پڑا۔‘‘
ایک اور اخبار لکھتا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران چين اور بھارت نے خود اپنی اقتصادی قوت پر بھروسہ کيا ہے۔ مغربی صنعتی ملکوں کو بحران سے نکلتے ہوئے دوبارہ قدم جمانے ميں مشکلات درپيش ہيں، ليکن چين، بھارت اور اقتصادی لحاظ سے ابھرتے ہوئے دوسرے ايشيائی ممالک مضبوط قدموں سے آگے بڑھ رہے ہيں۔ ايک سال قبل اُنہنں کچھھ مشکل پيش آئی تھی، ليکن ايشيا کی تيز رفتار زندگی ميں اسے بھلايا جاچکا ہے۔ مغربی ممالک کے ماہر اقتصاديات، ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک کی، اپنی اتنی کثير آبادی کو ملازمتيں فراہم کرنے کی صلاحيت پرحيران ہيں۔ اگلے عشروں کے دوران چين ميں تقريباً ايک ملين مزيد افراد روزگار کے متلاشی ہوں گے۔ بھارت ميں شرح پيدائش زيادہ ہونے کی وجہ سے روزگار کی منڈی ميں داخل ہونے والے نئے افراد کی تعداد اس سے بھی زيادہ ہوگی۔ بھارت اور چين ميں دولت آسانی سے کمائی نہيں جاتی۔ سخت محنت اور پيداوارميں قابل پيمائش اضافے ہی سے حالات زندگی بہتر بنائے جاسکتے ہيں۔
سری لنکا ميں 8 اپريل کو ہونے والے پارليمانی انتخابات حکومتی اتحاد نے جيت لئے ہيں۔ اخبار ’نوئس ڈوئچ لینڈ‘ لکھتا ہے:’’يہ بات امکان سے خارج نہيں کہ برسراقتدار کثيرالجماعتی اتحاد اپنے حق ميں دوتہائی اکثريت کے ووٹ تک اکٹھے کرلے۔ اس کا مطلب يہ ہوگا کہ صدر راجا پاکسے، بڑی آسانی کے ساتھ کئی آئينی تراميم کو منظور کراليں گے۔ پارليمانی انتخابات کے نتائج سے اُن کی پوزيشن بہر حال بہت مضبوط ہوگئی ہے۔ تامل اقليت کو اميد ہے کہ عالمی رائے عامہ صدر راجا پاکسے پر دباؤ ميں اضافہ کرے گی تاکہ وہ اپنی طاقت ميں اضافے کو، تامل اقليت اور سنہالی اکثريت کے درميان قوميتی سماجی تنازعے کے منصفانہ حل کی پيشکش اور اُس پر عمل کرانے ميں استعمال کريں گے۔ تامل پارٹياں يہ اشارہ دے چکی ہيں کہ وہ ہر منصفانہ تجويز کی حمايت کريں گی۔ اس طرح، ملک کو 30 برسوں سے بھی زيادہ عرصے سے اپنی شورش انگيز گرفت ميں لئے ہوئے تنازعے کے حل کی کنجی صدر کے ہاتھ ميں ہے۔‘‘
جائزہ: شہاب احمد صدیقی/ اَنا لہمان
ادارت: گوہر نذیر گیلانی