جنوبی سوڈان میں حکومت نے ایک سرکردہ صحافی کو حراست میں لے لیا ہے، ایک بین الاقوامی میڈیا تنظیم نے جمعہ کو حکومت سے اپیل کی کہ ان کو فوراﹰ رہا کیا جائے۔
اشتہار
صحافی کی گرفتاری کی خبر اقوام متحدہ کی جانب سے ایک واضح انتباہ کے بعد سامنے آئی جس میں اپوزیشن پارٹی کے ارکان یا ان سے وابستہ افراد سمیت من مانی حراستوں کی مذمت کی گئی تھی۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق، مقامی دی ڈان اخبار کے چیف ایڈیٹر ایمانوئل مونیچول اکوپ 28 نومبر سے نظر نہیں آئے۔
بین الاقوامی مانیٹرنگ گروپ نے اکوپ کے ساتھیوں اور ان کے کیس سے واقف ایک فرد کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ انہیں نیشنل سکیورٹی سروسز (این ایس ایس) کے ایجنٹوں نے حراست میں لیا ہے، جس نے صحافی کو دارالحکومت جوبا میں تنظیم کے ہیڈکوارٹر میں طلب کیا تھا۔
سی پی جے کے افریقہ پروگرام کی سربراہ انجیلا کوئنٹل نے کہا، "جنوبی سوڈانی حکام کو ایڈیٹر ایمینوئل مونیچول اکوپ کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہیے، اس کو قابل اعتماد الزامات پیش کرنا چاہیے یا اکوپ کو غیر مشروط طور پر رہا کرنا چاہیے۔"
انہوں نے کہا کہ این ایس ایس "صحافیوں کے حقوق کو پامال کرنے کے لیے بدنام ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حراست "پریس کی آزادی کے پہلے سے مایوس کن ریکارڈ کو مزید داغدار کرتی ہے۔"
ڈان اخبار کے منیجر موسیز گوٹ نے سی پی جے کو بتایا کہ اکوپ کی سلامتی کے بارے میں خدشات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " حکام کو کم از کم ان کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے، ہمیں ان سے ملنے کی اجازت دینی چاہیے، یہ ایک اچھی شروعات ہو گی۔"
اکوپ کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
اکوپ کو 2019 میں ایک فیس بک پوسٹ کے بعد حراست میں لیا گیا تھا جس میں ایک سفارتی دورے کے دوران ایک وزیر کی لب و لہجے پر تنقید کی گئی تھی۔ رہا ہونے سے پہلے انہیں ایک ماہ تک حراست میں رکھا گیا تھا۔
یہ گرفتاری حال ہی میں برطرف کیے گئے انٹیلی جنس چیف کے گھر پر فائرنگ کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے، جس نے ملک میں بہت سے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا جو آزادی کے بعد سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔
ستمبر میں جنوبی سوڈان نے ایک بار پھر ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات ملتوی کر دیے، اب یہ انتخابات دو سال بعد ہونگے۔
جنوبی سوڈان تیل کے بڑے ذخائر کے باوجود دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 177 ویں نمبر پر ہے۔
افریقہ سن 2021 میں، ایک تصویری جائزہ
کانگو رمبا کی فتح سے لے کر مختلف بغاوتوں نے براعظم افریقہ کو ہِلا کر رکھ دیا۔ مختلف واقعات درج ذیل تصاویر میں دیکھیں:
تصویر: Ericky Boniphase/DW
تنزانیہ اور کووڈ انیس
کورونا وبا کے اوائل میں تنزانیہ کئے صدر جان ماگوفلی نے کہا تھا کہ خدائی طاقت سے ان کا ملک کورونا وبا سے آزاد ہے۔ ان کی رحلت مارچ سن2021 میں ہو گئی تو جانشین خاتون صدر سامیہ حسن نے مرحوم صدر کی پالیسی تبدیل کر دی اور ویکسینیشن کے پروگرام کا آغاز کر دیا۔
تصویر: Ericky Boniphase/DW
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں تاریخ رقم ہو گئی
نائجیریا کی اینگوزی اوکانجو اِیویلا کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب کے لیے چُن لیا گیا۔ عالمی مالیاتی امور کی ماہر اوکانجو اِیویلا اس انتخاب سے قبل ویکسین آلائنس جی اے وی ای (GAVI) تنظیم کی سربراہ تھیں۔ وہ دو دفعہ نائجیریا کی وزیر خزانہ بھی رہ چکی ہیں۔
تصویر: Luca Bruno/AP Photo/picture alliance
چاڈ میں خاموش بغاوت
اس تصویر میں چاڈ کے مقتول صدر ادریس دیبی رواں برس کے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ وہ ملک کے چھٹی مرتبہ صدر منتخب ہو گئے تھے لیکن باغیوں کے خلاف میدانِ جنگ میں گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ فوج کے جرنیلوں نے ان کے بیٹے محمد کو عارضی صدر بنا دیا۔ ناقدین نے اسے ایک ’نسلی بغاوت‘ قرار دیا۔ ادریس دیبی کا دورِ صدارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقربا پروری اور کرپشن سے عبارت قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: MARCO LONGARI/AFP
بغاوتیں، بغاوتیں اور بغاوتیں
مامادی ڈومبُویا (ہاتھ ہلاتے ہوئے) وہ فوجی لیڈر ہیں جنہوں نے سن 2021 میں جبری طور پر اقتدار پر قبضہ کیا۔ سن 2021 کے اوائل میں مالی کی فوج نے نو ماہ میں میں دوسری بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ سوڈان میں بھی فوج نے اکتوبر میں سویلین حکومت کو فارغ کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔ سوڈان میں ایمرجنسی کا نفاذ ہے اور عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: CELLOU BINANI/AFP/ Getty Images
حیرانی میں دھرے گئے
کانگو کا آتش فشاں ماؤنٹ نیئراگونگو مئی میں اُبل پڑا تھا۔ ہزاروں افراد گھربار چھوڑؑنے پر مجبور ہو گئے۔ تین ہزار مکانات راکھ ہو کر رہ گئے۔ حکومت پر الزام لگایا گیا کہ آتش فشاں کی نگرانی کے لیے سرمایہ فراہم نہیں کیا گیا لہذا اس کے پھٹنے کی فوری اطلاع نہیں دی جا سکی۔
تصویر: Moses Sawasawa/AFP/Getty Images
موزمبیق میں مشترکہ آپریشن
ستمبر میں روانڈا کے صدر پال کاگامے نے موزمبیق میں تعینات اپنی فوج سے ملاقات کی تھی۔ موزمبیق کے شمالی صوبے کابو ڈیلگاڈو میں یہ افواج تعینات ہیں۔ موزمبیق کے صدر فیلیپے نیوسی نے روانڈا کی فوج کی کارروائیوں کی تعریف بھی کی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف جنوبی افریقی ترقیاتی کمیونٹی (SADC) کے رکن ملکوں کے فوجی بھی ایک مشترکہ آپریشن میں شریک ہیں۔
تصویر: Estácio Valoi/DW
ایتھوپیا کی خانہ جنگی اور سویلین کی مشکلات
ایتھوپیا میں کسی جنگ بندی کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ ملکی وزیر اعظم آبی احمد اور تگرائی کے باغی ابھی تک مدمقابل ہیں۔ یہ مسلح تنازعہ سن 2020 سے شروع ہے۔ ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Maria Gerth-Niculescu/DW
جنوبی افریقہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا
جنوبی افریقہ دنیا کے کئی حصوں سے اُس وقت کٹ کر رہ گیا جب نومبر میں اس ملک میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے اومیکرون ویرئنٹ دریافت کیا۔ اب برطانیہ سمیت کچھ اور ممالک نے اس ملک کے سیاحوں پر عائد سفری پابندیوں کو ہٹا دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی بہت سے ملکوں کی پابندیاں بدستور موجود ہیں۔
تصویر: Jerome Delay/AP Photo/picture alliance
لوٹے آرٹ کی واپسی کا جشن
سن 2021 افریقی ثقافتی ورثے کی بحالی میں ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ فرانس، جرمنی، بیلجیم اور نیدرلینڈز سمیت کئی اور ملکوں نے اس بر اعظم کے قیمتی تاریخی نوادرات کی واپسی کا سلسلہ شروع کیا۔ بنین میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے بادشاہ غیزو کے تخت کو فوجی اعزار کے ساتھ وصول کیا گیا۔
تصویر: Seraphin Zounyekpe/Presidence of Benin/Xinhua/picture alliance
مالی سے فرانس کا انخلاء
فرانس نے ٹمبکٹو کے فوجی اڈے کا کنٹرول مالی کی فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ فرانس کے فوجی مالی میں نو برس سے باغیوں کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ اس کے دو ہزار فوجی سن 2022 تک واپس وطن لوٹ آئیں گے۔ مالی کے وزیر خاجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا ملک فرانس کے ساتھ تعمیری مذاکرات کا خواہشمند ہے۔
تصویر: Blondet Eliot/ABACA/picture alliance
افریقی لٹریچر کا ایک عظیم سال
سن 2021 کو افریقی ادیبوں کے لیے ایک اچھا سال قرار دیا گیا ہے۔ تصویر میں زمبابوے کی ادیب ہی ٹسِٹسی ڈانگاریمبگا ہیں۔ ان کو جرمنی کا سالانہ پیس پرائز دیا گیا ہے۔ سینیگال کے محمد مبوگر سار کو فرانس کا معتبر پری گونکور پرائز اور جنوبی افریقی ادیب ڈامون گالگوٹ کو بُکرز پرائز سے نوازا گیا۔ سن 2021 ہی میں تنزانیہ کے عبدالرزاق گُرناہ کو نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔
تصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture alliance
آئیے ڈانس کریں
افریقی رمبا اس براعظم کا محبوب ترین رقص ہے۔ کانگو اور جمہوریہ کانگو میں رمبا موسیقی سے بھی زیادہ مقام رکھتا ہے۔ یونیسکو نے سن 2021 میں اس رقص کو دنیا کے ان چھوئے ورثے میں شامل کیا ہے۔ اس رقص و موسیقی کی صنف کو یہ اعزاز مشہور و معروف رمبا موسیقار پاپا ویمبا (تصویر میں) کی موت کے پانچ سالوں بعد ملا ہے۔