جنوبی ٹیرول کے لیے دوہری شہریت، اٹلی و آسٹریا میں تکرار
25 جولائی 2018
ایسی افواہ ہے کہ جنوبی ٹیرول کے صرف جرمن بولنے والوں افراد کو آسٹریا کی شہریت دینے کا قانونی عمل رواں برس شروع ہو سکتا ہے۔ اس معاملے پر اٹلی اور آسٹریا کی حکومتوں میں تکرار شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/Westend61
اشتہار
افواہ کے مطابق جرمن بولنے والے جنوبی ٹیرولین شہری ایک وقت میں اٹلی اور آسٹریا کی دوہری شہریت رکھنے کے اہل ہوں گے۔ اس حوالے سے یہ اہم ہے کہ اطالوی زبان بولنے والے جنوبی ٹیرول کے شہریوں کو یہ رعایت حاصل نہیں ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ بے شمار جرمن زبان بولنے والے جنوبی ٹیرول کے شہری آسٹریا کو اپنا مادر وطن خیال کرتے ہیں۔
جنوبی ٹیرول ایک پہاڑی علاقہ ہے، جو اٹلی کے ایک انتہائی کونے پر واقع ہے۔ اس علاقے میں تین زبانیں جرمن، اطالوی اور لادن بولی جاتی ہیں۔ لادن زبان کو نیم لاطینی زبانوں کے گروپ ’رومی‘ لسانی گروپ کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی ٹیرول کے جرمن بولنے والوں کے لیے رواں برس ستمبر تک آسٹریائی حکومت دوہری شہریت دینے کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کر سکتی ہے۔
آسٹریا کے بارڈر جنوبی ٹیرول کے ایک ریلوے اسٹیشن پر غیرقانونی تارکین وطن کا ہجومتصویر: picture-alliance/dpa/J. Groder
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ٹیرول کو اطالوی حکومت نے خصوصی خودمختاری سے نواز رکھا ہے۔ اس علاقے میں علیحدگی پسندی کی تحریک بھی پائی جاتی ہے۔ یہ علاقہ اٹلی کے زیرکنٹرول پہلی عالمی جنگ کے خاتمے بعد آیا تھا۔ دوہری شہریت کی خبر جنوبی ٹیرول کے جرمن زبان کے اخبار ’ٹیرولر ٹاگیس سائٹنگ‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اخبار کے مطالبق آسٹریائی پارلیمان سات ستمبر تک اس مناسبت سے قانون سازی کا آغاز کر سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق آسٹریائی شہریت صرف انہیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو جنوبی ٹیرول میں جرمن یا لادن زبانیں بولتے ہیں۔ جنوبی ٹیرول کی ساٹھ فیصد آبادی جرمن زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ اس پہاڑی علاقے میں پچیس فیصد لوگ اطالوی اور صرف چار فیصد لادن زبانیں بولتے ہیں۔
ویانا کے اخبار ڈی پریسے نے ملکی وزارت داخلہ کے ذرائع سے رپورٹ کیا ہے کہ ایسی قرارداد زیرغور یقینی طور پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایسی کوئی قانون سازی ہوتی بھی ہے تو یہ سن 2019 یا 2020 میں نافذالعمل ہو گی۔ اخبار ’ٹیرولر ٹاگیس سائٹنگ‘ نے یہ رپورٹ بظاہر ویانا کے حکومتی ذرائع سے جاری کی ہے لیکن چانسلر سیباستیان کرٹس نے اس کی تردید کر دی ہے۔
جنوبی ٹیروا اپنی خوبصورس بلند چوٹیوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہےتصویر: Imago/R. Haasmann
اطالوی حکومت نے آسٹریائی پیش رفت پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ اینزو مواویرو میلانیسی کا کہنا ہے کہ اٹلی کی پیشگی منظوری کے بغیر ایسی کوئی آسٹریائی پیش رفت ایک مشکل صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔ اس مناسبت سے روم میں آسٹریا کے سفیر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے اطالوی حکومت کے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے۔ اطالوی حکومت نے ویانا سے اپنا سفیر بھی مزید مشاورت کے لیے طلب کر لیا ہے۔
کرسٹینا بوراک (عابد حسین)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔