جنوبی پنجاب کے سیلابی علاقوں کا فضائی جائزہ
10 اگست 2010صبح کا وقت ہے میں اس وقت ملتان ایئر پورٹ پر موجود ہوں مجھے جنوبی پنجاب میں امدادی سرگرمیوں میں شریک ایک آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان سیلاب زدہ علاقوں میں جانے کا موقع مل رہا ہے جہاں پہنچنے کے تمام زمینی راستے مسدود ہوچکے ہیں۔
ہیلی کاپٹر میں منرل واٹر کی بوتلیں، پلاسٹک کے لفافوں میں پیک کیے گئے چاول اور دیگر امدادی اشیاء پڑی ہیں۔ پانچ سو فٹ کی بلندی پر اڑنے والا ہیلی کاپٹر ملتان کی حدود سے باہر نکل آیا ہے۔ اس وقت ہم سنانواں قصبےکے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ تاحد نظر ہرطرف پانی ہی پانی ہے۔ دکانیں اور مکانات سڑکیں اور پگڈنڈیاں، کھیت وکھلیان سب کچھ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔درختوں کی شاخیں نظر آرہی ہیں لیکن تنے کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
محمود کوٹ کی صورتحال تواور بھی بدتر ہے۔ سینکڑوں ایکڑ پر اگائی جانے والی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ہمارے ہم سفر میجر فاروق کے متوجہ کرنے پر دوسری کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں تو لال پیر پاور سٹیشن مکمل طور پرپانی میں ڈوبا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
فضا سے میں ایک ایسے گھر کو دیکھ رہا ہوں جہاں صحن میں موجود ایک چارپائی پر کھانے کے برتن رکھے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ان گھروں کے مکین اپنی جانیں بچانے کے لیے اچانک بھاگنے پر مجبور ہوئے ہوں۔ چوک منڈا کا علاقہ بھی سیلابی تباہیوں کا منظر پیش کررہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پارکو بھی سیلابی پانی کی زد میں ہے۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہم سطح سمندر کے اوپر سے گذر رہے ہیں۔ ساری بستیاں انسانوں سے خالی ہیں ہر طرف ویرانی کے ڈیرے ہیں تاہم بعض جگہوں پر سیلاب میں پھنسے لوگ بھی نظر آرہے ہیں۔کچھ لوگ اپنے کپڑے ہوا میں لہرا کر امدادی اشیا کے حصول کے لئے ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ کوٹ ادو کا علاقہ ہے جہاں ہر طرف پانی ہی پانی ہے گلیاں نہروں اور خالی میدان جھیلوں کا روپ دھار چکے ہیں۔اب ہم کوٹ ادو پاور سٹیشن کی رہائشی کالونی میں اترے ہیں۔ پانی میں پھنسے افراد تک امدادی اشیا یہاں چھوڑی گئیں اور پھر متاثرین کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے کا کام شروع ہوگیا، اور یہ مشن دن بھر جاری رہا۔
اب شام ہوچکی ہے ہم پھر ملتان کی طرف جارہے ہیں۔پانی میں ڈوبے ہوئے سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی جائزہ تکلیف دہ تجربہ ہے۔
رپورٹ : تنویر شہزاد مظفر گڑھ
ادارت : افسر اعوان