جنوبی کوريائی صدر کا مواخذہ
14 دسمبر 2024جنوبی کوريا ميں قانون سازوں نے ہفتے کے روز رائے دہی کے عمل کے ذريعے صدر يون سک يول کے مواخذے کے حق ميں فيصلہ کيا۔ 300 قانون سازوں ميں سے 204 نے مواخذے کے حق ميں اور 85 نے مخالفت ميں ووٹ ديا۔ تين نے رائے دہی کا حق استعمال نہيں کيا جبکہ آٹھ ووٹوں کو شامل نہيں کيا گيا۔
جنوبی کوریا: صدر نے مارشل لاء نافذ کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا
جنوبی کوریائی صدر کے پارلیمانی مواخذے کی تحریک ناکام
جنوبی کوریا: وزیر دفاع مستعفیٰ اور صدر کے مواخذے کی کوشش
مواخذے کے اس فيصلے کے بعد يون سک يول کو ان کے عہدے سے ہٹا ديا گيا ہے جب کہ آئينی عدالت اب کيس کا جائزہ لے رہی ہے، جس کے ليے اس کے پاس 80 دنوں کی مہلت ہے۔ وزير اعظم ہان ڈک سو کو قائم مقام صدر کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
يون سک يول نے تين دسمبر کے روز ملک ميں مارشل لاء نافذ کرنے کی ناکام کوشش کی اور يہی ان کی ناکامی کی وجہ بنی۔ اپوزيشن ڈيموکريٹک پارٹی کے اسمبلی ميں اسپيکر پارک چين ڈے نے کہا،' آج کا مواخذہ عوام کی فتح ہے۔‘‘
سيول پوليس کے ايک اہلکار نے خبر رساں ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ رائے دہی کے وقت ملکی پارليمان کی عمارت کے باہر تقريباً دو لاکھ لوگ جمع ہوئے جو سابق صدر کے مواخذے کے حق ميں نعرہ لگاتے رہے۔ اس کے برعکس اسی مقام پر يون سک يول کے حق ميں نکالی جانے والی ريلی کے شرکاء کی تعداد تيس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
اگر آئینی عدالت ان کی برطرفی کی حمایت کرتی ہے تو یون جنوبی کوریا کی تاریخ کے دوسرے صدر بن جائیں گے جن کا مواخذہ کیا گیا۔ لیکن عدالت کے پاس اس مواخذے کو روکنے کے ليے بھی جواز موجود ہے۔ سن 2004 میں، اس وقت کے صدر روہ مو ہیون کو پارلیمان نے انتخابی قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں اور نااہلی کے الزام میں ہٹا دیا تھا، لیکن بعد میں آئینی عدالت نے انہیں بحال کر دیا تھا۔
عدالت میں اس وقت صرف چھ جج ہیں، یعنی ان کا فیصلہ متفقہ ہونا چاہیے۔
یون ابھی تک غیر معذرت خواہانہ رویہ اختيار کيے ہوئے ہيں جبکہ مارشل لاء کے اعلان کا نتیجہ پيچيدہ ہے اور تحقیقات کا دائرہ کار وسیع ہو گیا ہے۔ جمعے کو جاری ہونے والے گیلپ کوریا کے سروے کے مطابق، عوام ميں ان کی پسنديدگی کی ريٹنگ 11 فیصد تک گر گئی ہے۔
اسی سروے سے پتا چلتا ہے کہ 75 فیصد عوام ان کے مواخذے کی حمایت کرتے ہیں۔
ع س / ع ت (اے ایف پی)