جنوبی کوریائی باشندے زیادہ کام کرتے ہیں
9 فروری 2011جنوبی کوریا کے عوام دل میں شدید خواہش رکھتے ہیں کہ وہ جلد ہی اپنا دفتری کام نمٹا کر گھروں کو چلے جائیں تاہم ان کے خیال میں اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی ترقی رک سکتی ہے اور کچھ کے خیال میں وہ نوکری سے بھی فارغ کر دیے جا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارےAFP سے گفتگو کرتے ہوئے لی نے بتایا،’ میں ایک ہفتے میں کم ازکم چار دن اوور ٹائم کرتا ہوں۔‘ اس کی کمپنی بھی دیگر کئی اداروں کی طرح اضافی کام کرنے والوں کو کوئی بونس یا رقم نہیں دیتی ہے۔ تاہم لی کے دفتر میں چھٹی کے بعد بھی کام کرنے والے قریب ایک گھنٹے یا کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ دیر تک کام میں مصروف رہتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہاں جنگ کے بعد پیدا ہونے والی غربت کے خاتمے کے لیے اخلاقی طور پر لازم ہے کے کہ اضافی کام کیا جائے، لیکن دوسری طرف کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ بوس کے جانے سے قبل وہ اس لیے دفتر نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ وہ خوف زدہ ہوتے ہیں۔
اقتصادی تعاون کے ترقیاتی ادارے OECD کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی کوریا میں کام کرنے کے اوقات دیگر رکن ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس ادارے کی طرف سے سن 2009ء میں جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق وہاں ایک ہفتے میں 46.6 گھنٹے کام کرنا معمول کی بات ہے۔
دوسری طرف جنوبی کوریا کے وزیر برائے محنت کا کہنا ہے کہ کام کے اوقات کم کرنے سے نہ صرف لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا بلکہ کام کی کوالٹی بھی اچھی ہو جائے گی۔ کئی ماہرین کے خیال میں جنوبی کوریا میں شرح پیدائش کے کم تناسب کی وجہ لوگوں کا زیادہ تر وقت دفاتر میں گزارنا ہے۔
جنوری سن 2010ء میں ہیلتھ منسٹری نےاعلان کیا تھا کہ وہ مہینے میں ایک مرتبہ اپنے تمام تر دفاتر شام ساڑھے سات بجے بند کریں گے تاکہ وہاں کام کرنے والے اپنے اپنے گھروں میں جا کر فیملی پلاننگ پر زور دیں۔
کئی ماہرین کے مطابق جنوبی کوریا میں زیادہ دیر تک دفاتر میں کام کرنے کا کلچر جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ ان کے مطابق جب موجودہ نوجوان طبقہ اہم عہدوں پر فائز ہو جائے گا تو کام کرنے کے اوقات بدل جائیں گے کیونکہ اس وقت ملک کی معیشت میں بھی بہت زیادہ بہتری آ چکی ہو گی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفیٰ