1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجنوبی کوریا

جنوبی کوریائی صدر کے پارلیمانی مواخذے کی تحریک ناکام

7 دسمبر 2024

جنوبی کوریا میں صدر یون سک یول کے خلاف ملک میں مارشل لاء لگانے کے ان کے چند ہی گھنٹوں میں ناکام ہو جانے والے فیصلے کے بعد شروع کردہ پارلیمانی مواخذے کی تحریک حکمران جماعت کے بائیکاٹ کے باعث ہفتے کی شام ناکام ہو گئی۔

سیول میں جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی میں منتخب اراکین کی زیادہ تر نشستیں خالی رہیں
سیول میں جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی میں منتخب اراکین کی زیادہ تر نشستیں خالی رہیںتصویر: Jeon Heon-kyun/Pool Photo via AP/picture alliance

جنوبی کوریائی دارالحکومت سیول سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ ہفتہ جنوبی کوریا کی سیاست کے لیے بہت تہلکہ خیز رہا۔ پہلے صدر یون نے ملکی اپوزیشن پر سیاست اور پارلیمان کو جمود کو شکار بنا دینے کا الزام لگا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔

پھر اس اقدام کے خلاف جب پارلیمان نے باقاعدہ ایک قرارداد منظور کر لی، تو محض چند ہی گھنٹے بعد صدر کو یہ اعلان کرنا پڑ گیا کہ وہ پارلیمان کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مارشل لاء ختم کر دیں گے اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔

جنوبی کوریا: وزیر دفاع مستعفیٰ اور صدر کے مواخذے کی کوشش

پھر صدر یون سک یول کے خلاف پارلیمان میں مواخذے کی قرارداد پیش کر دی گئی، جس کو اپوزیشن کی بھرپور تائید حاصل تھی اور عوام کا ایک بڑا حصہ بھی یہی مطالبہ کر رہا تھا کہ پارلیمان کو صدر یون کو ان کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے۔

سیول میں پارلیمان کے باہر عوامی مظاہرین مواخذے کی تحریک کی کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھےتصویر: Roland de Courson/AFP

پارلیمان میں ووٹنگ ہو ہی نہ سکی

آج ہفتہ سات دسمبر کی شام سیول کی پارلیمان میں صدارتی مواخذے کی تحریک پر رائے دہی ہونا تھی، لیکن حکمران جماعت نے اس کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے ارکان کی بہت بڑی تعداد ایوان میں نہ پہنچی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر یون سک یول مواخذے سے بچ گئے، جن کی طرف سے گزشتہ منگل کی رات ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا فیصلہ جنوبی کوریائی عوام کے ساتھ ساتھ پوری بین الاقوامی برادری کے لیے انتہائی حیران کن تھا۔

جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لاء کے بعد اب کیا ہو گا؟

اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ مواخذے کی تحریک کی کامیابی کے لیے دو تہائی ارکان پارلیمان کی حمایت درکار تھی، لیکن یون کی جماعت پیپلز پاور پارٹی کے اراکین کی تقریباﹰ مکمل غیر حاضری اس قرارداد کے ووٹنگ کے بغیر ہی ناکام رہ جانے کی وجہ بنی۔

جنوبی کوریائی صدر یون سک یول، جنہیں ملکی پارلیمان ان کے عہدے سے ہٹا نہ سکیتصویر: South Korean Presidential Office/Yonhap/AP/picture alliance

پارلیمانی اسپیکر کا اعلان

جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کے اسپیکر وو وون شیک نے دو تہائی اراکین کی موجودگی کی لازمی شرط پوری نہ ہونے پر ایوان میں کہا، ''ارکان کی دو تہائی اکثریت کی موجودگی اور کم از کم اتنی ہی حمایت کی لازمی شرط پوری نہ ہو سکی۔ نتیجہ یہ کہ مواخذے کا عمل غیر مؤثر (ناکام) ہو گیا۔‘‘

جنوبی کوریا: مارشل لاء کی افراتفری اور صدر سے استعفے کا مطالبہ

ساتھ ہی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا، ''پورے ملک اور ساری دنیا کی نظریں پارلیمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ قومی اہمیت کے حامل اس معاملے پر ووٹنگ ہی نہ کرائی جا سکی۔‘‘

پارلیمانی اسپیکر نے حکمرن جماعت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اپنے بائیکاٹ کے ساتھ ''جہوری عمل میں اپنی شرکت کو یقینی بنانے میں ناکام رہی۔‘‘

منتظمین کے مطابق ہفتے کے روز صدر کے کامیاب مواخذے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی تعداد ایک ملین تک رہیتصویر: Chris Jung/NurPhoto/picture alliance

حکمران پارٹی کا موقف

صدارتی مواخذے کی قرارداد پر اپنے پارلیمانی بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے والی حکمران جماعت پیپلز پاور پارٹی نے بعد ازاں اس بارے میں کہا کہ اس نے اس قرارداد پر ووٹنگ کو اپنی غیر حاضری کے ساتھ رکوا کر ملک کو ''شدید تقسیم اور انتشار‘‘ سے بچایا ہے۔

ساتھ ہی اس پارٹی نے یہ بھی کہا کہ وہ اس مسئلے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کو زیادہ ذمے دارانہ طور پر اور منظم طریقے سے حل کرے گی۔‘‘

مظاہرین ناخوش

صدر یون سک یول کے مواخذے کے عمل کی پارلیمانی ناکامی پر جنوبی کوریا کے وہ شہری بہت ناخوش اور غیر مطمئن تھے، جو سیول میں قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر اور دیگر مقامات پر جمع تھے۔

یہ ویڈیو جنوبی کوریائی تاریخ کا حصہ بن جائے گی

02:32

This browser does not support the video element.

جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا پرانتباہی فائرنگ

یہ مظاہرین صدر یون کی پارلیمان کی طرف سے برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے اور پولیس کے مطابق ان کی تعداد تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اس کے برعکس اس عوامی احتجاج کے منتظمین نے ان مظاہرین کی تعداد ایک ملین تک بتائی۔

کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی دے دی

ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی یونیورسٹی میں کوریائی علوم کے پروفیسر ولادیمیر تیخونوف نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''صدارتی مواخذے کی تحریک کی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ اب جنوبی کوریا میں پایا جانے والا سیاسی بحران مزید طول پکڑ جائے گا۔‘‘

م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

جنوبی کوریا میں مارشل لاء لگانے کی کوشش ناکام

02:56

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں