1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریائی مہمان کارکنوں کی جرمنی آمد کے پچاس برس

12 اپریل 2013

1963ء اور 1977ء کے درمیانی عرصے میں جنوبی کوریا سے جو مہمان کارکن وفاقی جمہوریہ جرمنی آئے تھے، ان کی مجموعی تعداد 18 ہزار کے قریب تھی۔ انہیں چند سال بعد واپس لوٹ جانا تھا لیکن ان میں سے بہت سے ابھی تک جرمنی میں مقیم ہیں۔

تصویر: Verein der nach Deutschland entsandten Bergleute und Krankenschwestern und Professor Kwon

جرمنی میں جنوبی کوریائی مہمان کارکنوں کی آمد اور ان کا یہاں قیام ایک ایسا تاریخی عمل ہے جو نصف صدی پر محیط ہے۔ جزیرہ نما کوریا کے جنوبی حصے کی جمہوری ریاست سے جرمنی کی تقسیم کے دور میں مغربی حصے کی وفاقی ریاست کا رخ کرنے والے مشرق بعید کے ان کارکنوں کی آمد کے 50 سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک ایسی تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے، جو اپنے اندر بہت سی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔

1966ء میں کولون کے ہوائی اڈے پر اترنے والی جنوبی کوریائی نرسوں کا ایک گروپتصویر: Verein der nach Deutschland entsandten Bergleute und Krankenschwestern und Professor Kwon

اس تصویری نمائش کا اہتمام وفاقی جرمن دارالحکومت برلن کے کوریائی ثقافتی مرکز کی گیلری میں کیا گیا ہے۔ بارہ اپریل کو شروع ہونے والی یہ نمائش بعد میں بہت سے دیگر جرمن شہروں میں بھی کی جائے گی جس کے بعد اس کی منزل جنوبی کوریا ہو گی، ماضی کے ان ہزار ہا مہمان کارکنوں کا آبائی وطن۔

یہ جنوبی کوریائی مہمان کارکن جرمنی میں کان کنی کی صنعت میں ملازمتوں کے لیے بلائے گئے تھے۔ ان کی آمد کے وقت کسی نے بھی ان کے سماجی انضمام کے بارے میں اس لیے نہیں سوچا تھا کہ انہیں تو جلد ہی واپس چلے جانا تھا۔ لیکن ان میں سے بہت سے کارکنوں نے اپنی ملازمتوں کے معاہدے پورے ہونے کے بعد جرمنی ہی میں مقیم رہنے کا فیصلہ کیا۔

کسی نے کوئی نئی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کا سوچا، کسی نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کو ترجیح دی تو کسی نے اس لیے کسی نہ کسی جرمن مرد یا عورت سے شادی کا راستہ اپنایا کہ قانونی طور پر اپنے میزبان معاشرے میں آئندہ مستقل رہائش اختیار کر سکے۔

نصف صدی قبل جرمنی آنے والے بائیون نامی ایک جنوبی کوریائی مہمان کارکن کی اس کے اہل خانہ کے ساتھ لی گئی ایک حالیہ تصویرتصویر: Herlinde Koelbl

’جنوبی کوریائی مہمان کارکنوں کی جرمنی آمد کے 50 سال‘، اس بارے میں تصویری نمائش کا اہتمام رہان گُنڈرلاخ نے کیا ہے۔ وہ جی پلس ایچ (g+h) نامی ایک کمیونیکیشن کمپنی کی مالکہ ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اس جرمن شہری کا تعلق بھی ایسے ہی کوریائی مہمان کارکنوں کے ایک خاندان سے ہے۔

پانچ عشرے قبل جو کوریائی کارکن جرمنی آئے تھے، ان کے ساتھ ان کی بیویوں کے طور پر قریب 10 ہزار خواتین بھی آئی تھیں۔ ان خواتین کی آمد اس لیے بڑی کارآمد ثابت ہوئی کہ وہ روزگار کی مقامی منڈی میں اپنے لیے جگہ بنا سکتی تھیں اور تب جرمنی میں کئی شعبوں میں خواتین کارکنوں کی شدید کمی تھی، مثال کے طور پر نرسنگ کے پیشے میں۔ تب ایسی بہت سی خواتین نے باقاعدہ تربیت کے بعد نرسنگ کا پیشہ اپنا بھی لیا تھا۔

جنوبی کوریا کے ان ہزار ہا مہمان کارکنوں میں سے اگر ایک مثال کے طور پر جِن بَوک کِم کا ذکر کیا جائے تو اس نے جرمنی آ کر کان کنی کے شعبے میں کام تو کیا لیکن اپنی ملازمت کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اس نے مستقل قیام کا فیصلہ کیا تو باقاعدہ تربیت حاصل کر کے وہ بیماروں اور بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرنے والا پیشہ ور کارکن بن گیا۔

جرمن ہسپتالوں میں آج بھی بہت سی کورین نژاد نرسیں کام کرتی ہیں۔تصویر: Kim Sperling

اس شعبے میں کئی سال ملازمت کرنے کے بعد اس نے اپنا کوئی کام شروع کرنے کا ارادہ کیا اور برلن میں اپنی ٹیکسی چلانا شروع کر دی۔

پھر اپنی پینشن سے قبل قریب 30 سال تک Jin-Bok Kim نے شہر میں دو لاکھ سے زائد مسافروں کو ان کی منزلوں تک پہنچایا اور برلن کی سڑکوں پر قریب دو ملین کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔

جِن بَوک کِم کا کہنا ہے کہ آج کے جرمنی میں یہ جنوبی کوریائی کارکن اور ان کی نئی نسلیں ایسے جرمن شہری ہیں جن کی ثقافتی جڑیں کوریا میں ہیں۔ وہ سب ہیں تو جرمن اور یورپی شہری لیکن اپنے دلوں میں وہ کورین تھے اور آج بھی کورین ہیں۔

E. Felden, mm / A. Lehmann, aba

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں