جنوبی کوریا، اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے لیے جوڑ ملنا مشکل
15 مارچ 2012جنوبی کوریا میں، جو کہ ایشیا کا ایک امیر ملک ہے خواتین روز بروز زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی جا رہی ہیں۔ سن 1995 کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد 5 گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ اپنے شوہروں کے انتخاب میں پہلے سے کہیں زیادہ محتاط ہو گئی ہیں اور ان کے انتخاب کا معیار بھی کافی بلند ہو گیا ہے۔ اب صورتحال پہلی جیسی نہیں ہے، جب کوریا کی خواتین اپنے جیون ساتھی کے چناؤ میں نہایت روایتی سمجھی جاتی تھیں۔
سیول کے ایک کالج کی طالبہ ’لی‘ جو صرف اپنے دوسرے یا فیملی نام سے جانی جانا چاہتی ہیں کیونکہ یہ اُن کی اپنی خواہش ہے، کہتی ہیں، ’ایم اے کی ڈگری کے ساتھ اپنے پسند کا شوہر تلاش کرنا بی اے کی ڈگری والی خاتون کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہے۔‘
اعداد و شمار کے مطابق کوریا میں خواتین کی شادی کے لیے آمادہ ہونے والی عمر میں گزشتہ 20 سالوں کے درمیان اوسطا چار اعشاریہ ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ عمر 28 سے 29 سال کے بیچ ہو گئی ہے۔ اس لیے کوریا میں ماؤں کو سخت پریشانی اور تشویش لاحق ہے۔ ’آہن‘ کی عمر پچاس اور پچپن کے درمیان ہے، وہ اپنی بیٹی کے بارے میں کہتی ہیں، ’میری بیٹی کی عمر 30 سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس عمر کو کوریا میں شادی کے لیے بڑی عمر سمجھا جاتا ہے۔ میں اپنی بیٹی کے مناسب رشتے کے لیے اُسے سیؤل کے میرج بیورو لے گئی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ سال ضائع نہ ہو جائے کیونکہ آئندہ سالوں میں اس کا رشتہ ملنا اور مشکل ہو جائے گا۔ اب میں نے اسے اس شادی دفتر میں رجسٹر کرا دیا ہے‘۔
’ڈیو‘ نامی ایک فرم جو رشتے لگوانے کا کام انجام دیتی ہے، 26 ہزار اراکین پر مشتمل ہے۔ یہ اراکین مختلف ممبر شپ پروگراموں میں سے اپنے لیے مناسب پروگرام کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ان پروگراموں کی فیس ایک اعشاریہ آٹھ سے لے کر آٹھ اعشاریہ آٹھ وؤن کے درمیان ہوتی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: حماد کیانی