جنوبی کوریا کے نئے مجسموں پر جاپان اتنا برہم کیوں ہے؟
29 جولائی 2020
جاپان نے جنوبی کوریا میں ان مجسموں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جو ''کمفرٹ وومن'' کے نام سے ان خواتین کی یاد میں میں نصب کیے گئے ہیں جنہیں سیکس کے لیے غلامی پر مجبور کیا گیا تھا۔
اشتہار
منگل کے روز جاپان میں حکام نے جنوبی کوریا میں نئے مجسموں پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جاپان اور جنوبی کوریا کے رشتے متاثر ہوسکتے ہیں۔ان مجسموں کا نام ''کمفرٹ وومن'' ہے۔ یہ مجسمے ان خواتین کی یاد میں تیار کیے گئے ہیں جنہیں جزیرہ نما کوریا پر نوآبادیاتی قبضے کے دوران محاذ جنگ پر قائم ان کوٹھوں میں سیکس کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تھا جو جاپانی فوجیوں کے لیے مخصوص تھے۔
ان میں سے ایک مجسمے میں ایک خاتون گھٹنے ٹیکتے ہوئے ایک مرد کے سامنے بیٹھی ہوئی ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس مرد کی شکل جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے سے مشابہہ ہے۔ حالانکہ مجسموں کے مالک اس کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم جاپان کو اسی بات پر اعتراض ہے۔
جاپان کے چیف کابینی سکریٹری یوشیہیدے سوگا کا کہنا تھا، ''اگر خبریں درست ہیں، تو پھر جاپان اور کوریا کے رشتوں پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ میرے خیال میں عالمی قدروں کے لحاظ سے مروت اور تواضع میں بھی ایسی چیزیں نا قابل معافی ہیں۔''
ابدی کفارہ
جنوبی کوریا میں یہ مجسمے کوہستانی شہر پیونگ چانگ کے ایک باٹینک باغ میں نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے مالک کم چانگ ریول کا کہنا ہے کہ ان مجسموں کا نظریہ تو انہیں کا ہے تاہم انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اس سے اس سطح پر تنازعہ پیدا ہو جائیگا۔
کم نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص آبے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آبے نہ ہوں۔ یہ ہر اس شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو ذمہ داری کے عہدے پر فائز ہو، جو اب یا پھر مستقبل میں جنسی غلامی سے دو چار ہونے والوں سے تہہ دل سے معذرت کر سکتا ہو۔ یہ تو ایک لڑکی کا باپ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے تو ان مجسموں کا نام 'ابدی کفارہ' رکھا گیا ہے۔''
جنوبی کوریا میں وزارت خارجہ کے ترجمان کم ان چول کا کہنا تھا کہ جب بات حکومت یا پھر ملک کے سربراہ کی ہو تو ممالک کو 'بین الاقوامی احترام' کا خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا بین الاقوامی احترام جیسی چیز کا اطلاق کم چانگ ریول جیسے ذاتی فرد پر بھی عائد ہوتا ہے تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جاپانی فوجیوں کے لیے مخصوص چکلوں پر جنسی طور خواتین کو غلام بنانے کے مسئلے پر جنوبی کوریا اور جاپان کے درمیان گزشتہ برس بھی اس وقت تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا جب جنوبی کوریا کے صدر مون جے نے اس بارے میں 2015 میں ہونے والے معاہدے کو غیر قانونی بتایا تھا۔ جاپان اور کوریا کے درمیان یہ معاہدہ مون جے کے پیش رو نے کیا تھا جس کے تحت جاپانی وزیراعظم نے اس مسئلے پر جاپان کی طرف سے معذرت پیش کرتے ہوئے ان اداروں کو 90 لاکھ کی رقم فراہم کی تھی جو ایسی خواتین کی فلاح کے لیے کام کرتے ہیں۔
جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے بھی فیصلہ سنایا تھا کہ جنوبی کوریا میں کام کرنے والی جاپانی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ ان افراد کو معاوضہ فراہم کریں جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ان کے لیے کام کیا تھا۔ لیکن جاپان نے اس کے رد عمل میں جنوبی کوریا کو ہائی ٹیک پروڈکٹ کی برآمدات روک دی تھیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی،روئٹرز)
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: AP
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
تصویر: Claude de Chabalier/AFP/Getty Images
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔