جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لاء کے بعد اب کیا ہو گا؟
4 دسمبر 2024جنوبی کوریا کی سیاست میں راتوں رات ہلچل مچانے والی بحرانی صورتحال آج بدھ کے روز بھی قائم رہی۔ یہ افراتفری صدر یون سک یول کی جانب سے منگل کو رات دیر گئے پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے اعلان اور پھر صرف چھ گھنٹوں بعد پارلیمان کے دباؤ پر اپنا فیصلہ واپس لینے کے بعد سے جاری ہے۔ اس دوران دارالحکومت سیؤل میں اسمبلی کی سیڑھیوں پر اور پارلیمنٹ کے اطراف میں مسلح فوجیوں کی موجودگی نے جنوبی کوریائی قوم کو چونکا دینے کے ساتھ ساتھ 1960ء کی دہائی کے وسط سے لے کر 1980ء کی دہائی کے آخر تک حکمرانی کرنے والی فوجی آمریتوں کی یادیں تازہ کر دیں۔
اسی دوران مرکزی اپوزیشن پارٹی نے بدھ کی صبح صدر یون کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی پارلیمان میں جمع کرا دی۔ یون سیاسی طور پر آزمائشوں سے بھرے ایک سال کے بعد پہلے ہی اپوزیشن کے نشانے پر تھے۔ ان کی مقبولیت کا گراف رواں ہفتے کے آغاز پر ہی انیس فیصد تک گر چکا تھا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کی حامل اپوزیشن اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
غلط وقت کا انتخاب
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ قدامت پسند صدر کی اپوزیشن کے خلاف شکایات جائز ہو سکتی تھیں، کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنی پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر صدر کی جانب سے قانون سازی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی تھی، لیکن صدر نے اپنے حملے کے لیے غلط وقت کا انتخاب کیا اور یہ ایک ایسی غلطی تھی، جس نے انہیں سیاسی طور پر پہلے سے زیادہ کمزور بنا دیا۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سابق سیاستدان اور اب کم ڈائی جنگ پیس فاؤنڈیشن کے بورڈ کے رکن کم سانگ وو کا کہنا تھا، ’’میڈیا اور عوام میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اقدامات پر کافی تنقید ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یون کو اسی سے غلط فہمی ہوئی اور وہ اس کو اپنے لیے پہلے سے زیادہ حمایت سمجھ بیٹھے۔‘‘
کم سانگ کا مزید کہنا تھا، ’’اپوزیشن اپنی قانون سازی کی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے صدر کی اہلیہ کے بارے میں قانونی تحقیقات اور ان کی حکومت کے سینئر اراکین کے خلاف مواخذے کی تحریک کا مطالبہ کرنے سمیت ایسی قانون سازی کے لیے زور لگا رہی تھیں، جو صدر یون کے خیال میں قومی مفاد کے خلاف تھی۔‘‘
اس سال کے شروع میں وسط مدتی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد حزب اختلاف کو ایوان میں اکثریت حاصل ہو گئی تھی اور اسی سبب یون اپنی صدارتی مدت کے آدھے راستے میں بے اختیار ہو کر رہ گئے تھے۔
اپنے بھی ناراض
صدر یون کی اپنی جماعت پیپلز پاور پارٹی بھی اس وقت اُن سے ناراض ہو گئی تھی، جب اپوزیشن نے صدر کو دفاعی بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کرنے پر مجبور کیا۔ اسی سبب مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے صدر یون کا کوئی ثبوت یا تفصیلات فراہم کیے بغیر کہنا تھا کہ ان کا مقصد’’حزب اختلاف کے اندر سے شمالی کوریا کی حامی قوتوں کو ختم کرنا تھا۔’’
اس صدارتی اقدام نے 1980ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے ان ڈکٹیڑوں کی یاد دلا دی، جو اختلاف رائے رکھنے والوں اور سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے کے لیے انہیں شمالی کوریا کے حامی قرار دیتے تھے۔ اس سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی سیاست دانوں کو بھی حال ہی میں بدعنوانی اور دیگر مقدمات کے لیے تحقیقات کا نشانہ بھی بنایا گیا، جن میں پارٹی کے رہنما لی جے میونگ بھی شامل ہیں، جنہیں نومبر کے وسط میں انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ایک سال قید کی سزا سنائی گئی اور ان کی پارلیمانی رکنیت بھی دو سال کے لیے معطل کر دی گئی تھی۔ انہوں نے سزا کے خلاف اپیل کر رکھی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال کچھ بھی تھی صدر نے اپنے ہاتھوں اپنی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔
سیئول میں قائم ایوا ویمنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر لیف-ایرک ایزلی کا کہنا ہے کہ یون کا مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان قانونی حد سے متجاوز، غلط سیاسی اندازوں اور جنوبی کوریا کی معیشت اور سلامتی کو غیر ضروری طور پر خطرے میں ڈالنے والا فیصلہ تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’انتہائی کم عوامی اور اپنی پارٹی اور انتظامیہ کی مظبوط حمایت کے بغیر، صدر کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ رات گئے اپنے فرمان پر عمل درآمد کرانا کتنا مشکل ہو گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’وہ ایک محصور سیاست دان کی طرح لگ رہے تھے، جس نے اسکینڈلز کے اضافے، ادارہ جاتی رکاوٹوں اور مواخذے کے مطالبات کے خلاف ایک مایوس کن اقدام کیا، ان سب میں اب شدت آنے کا امکان ہے۔‘‘ ایزلی کا کہنا تھا کہ یون نے مارشل لاء کا اعلان واپس لے کر درست کام کیا، کیونکہ اس سے تشدد یا آئینی بحران کا امکان کم ہو گیا۔‘‘
’ناتجربے کاری‘
اب جنوبی کوریا کو عدم استحکام کے دور کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ایگزیکٹیو اور مقننہ کے درمیان تعطل جاری ہے۔ کم سانگ کا کہنا ہے، ’’جب یون صدر منتخب ہوئے تو ان کے پاس پراسیکیوٹر کے طور پر 26 سال کام کرنے کا تجربہ تھا لیکن ان کا قطعی طور پر کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کوئی اندازہ تھا کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’لوگوں نے انہیں ووٹ دیا کیونکہ وہ ایک روایتی سیاست دان نہیں تھے، ان کی اپنے سیاسی پیشروؤں سے کوئی وفاداری نہیں تھی اور وہ خود مختار تھے۔‘‘ کم کا کہنا تھاکہ صورتحال خطرناک ہے۔ ’’لوگوں نے 'مارشل لاء ' کی اصطلاح سنی اور فوری طور پر فوجی آمریتوں کے دور کی تکلیف دہ تصویریں ان کے زہنوں میں واپس آ گئیں۔ اگر لوگ بہت زیادہ جذباتی ہو جائیں تو خطرناک ہوتا ہے۔‘‘
اپوزیشن نے یون سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور دارالحکومت سیئول میں مزید مظاہروں کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔
جولین رائیال (ش ر⁄ ک م)