جنوبی کوریا کی آبادی پانچ کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ ملک ميں اب تک تقريباً نو ہزار لوگ نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے اور ایک سو بیس کے قریب اس انفیکشن کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔
اشتہار
صورت حال پر قابو پانے کے لیے کئی ملکوں کے برعکس جنوبی کوریا نے مکمل لاک ڈاؤن اور شہریوں کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں نہیں لگائیں، بلکہ اپنی توجہ متاثرہ افراد کی تشخیص اور انہیں محدود کرنے پر مرکوز کی۔
حکام نے شہریوں میں مرض کی تشخیص کے لیے جگہ جگہ چیک پوائنٹ اور خیمے قائم کیے، جہاں جو چاہے جب چاہے کورونا کا مفت ٹیسٹ کرا سکتا ہے۔
ملک میں اب تک قريب تین لاکھ لوگ اپنا ٹیسٹ کرا چکے ہیں اور روزانہ مزید بیس ہزار کے لگ بھگ شہری اپنا ٹیسٹ کرا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ’ڈرائیو تھرو‘ ٹیسٹنگ کی سہولت بھی متعارف کرائی، جسے پھر دیگر ملکوں نے بھی اپنایا۔
نتیجہ یہ کہ جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرانے والوں کی تعداد امریکا اور جرمنی جیسے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جن لوگوں میں کورونا وائرس پایا گیا، انہیں سیدھا قرنطینہ روانہ کر دیا جاتا ہے۔ چاہے انہیں بخار اور نزلے زکام کا علامات ہوں یا نہ ہوں۔ جنوبی کوریا میں ایسے مریضوں کی تعداد تیس فیصد بتائی گئی ہے، جو کہ چین اور جاپان کے اعدادوشمار سے ملتی ہے۔ لیکن یہ معلومات عالمی ادارہ صحت کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپی یونین میں وائرس سے متاثرہ لیکن بظاہر بالکل صحت مند لوگوں کی تعداد ایک یا تین فیصد سے زائد نہیں۔
انڈونیشیا: کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چمگادڑوں کا خاتمہ
00:56
جنوبی کوریا میں اگر کوئی مریض قرنطینہ سے بھاگنے کی کوشش کرے تو خلاف ورزی کرنے والے کو ڈھائی ہزار ڈالر تک کا جرمانہ ہو جاتا ہے۔ حکام اس جرمانے کو مزید سخت کر کے تین گنا بڑھانے اور ساتھ ایک سال قید کی سزا دینے پر غور کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنوبی کوریا کا کورونا ٹیسٹنگ پروگرام، ایک منظم لیکن مہنگا پروگرام ہے، جس کے لیے اکثر ملکوں کے پاس وسائل نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی کوریا میں حکومت کے پاس شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی آسان ہے، جس کے باعث شاید مریضوں اور ان کے ساتھ رابطے میں آنے والوں کو ڈھونڈ نکالنا آسان ہے۔ یورپی ممالک میں حکام کے اوپر آئینی اور قانونی قدغنیں ہوتی ہیں کہ وہ آسانی سے شہریوں کی ذاتی معلومات تک رسائی نہیں حاصل کر سکتے۔ لیکن جنوبی کوریا میں دو ہزار پندرہ میں اسی طرح کی وبا کی روک تھام کی کوششوں کے بعد حکام کے پاس وسیع اختیارات ہیں کہ وہ لوگوں کے کریڈٹ کارڈ سے لے کر ان کے میڈیکل اور فون ریکارڈ تک حاصل کرکے ان کی نقل و حرکت کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
ہاتھ دُور رکھیں: کورونا وائرس کی وبا اور احتیاط
یورپ سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں کورونا وائرس کی بیماری کووِڈ انیس پھیل چکی ہے۔ اِس وبا سے بچاؤ کے لیے ہاتھ صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
دروازوں کے ہینڈل غیر محفوظ
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
اپنے دفتر یا کسی کیفے پر کھانا کھاتے ہُوئے بھی احتیاط ضروری ہے۔ اگر کسی نے کھانسی کر دی تو کورونا وائرس کیفے ٹیریا کے برتنوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
کیا ٹیڈی بیئر بھی وائرس رکھ سکتا ہے؟
بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ خطرات کا اندازہ لگانے والے جرمن ادارے بی ایف آر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کھلونوں سے اِس وائرس کے پھیلنے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ بی ایف آر کے مطابق کھلونوں کی غیر ہموار سطحیں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اِمکانی طور پر سازگار نہیں ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
خطوط اور پیکٹس
امریکی تحقیقی ادارے راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم ڈاک سے بھیجی گئی اشیاء پر چوبیس گھنٹے تک پلاسٹک یا کارڈ بورڈ پر زندہ رہ سکتی ہے۔ وائرس کی یہ قسم اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں پر بہتر گھنٹے زندہ رہ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
پالتُو کُتے بھی وائرس پھیلنے کا باعث ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق پالتُو جانوروں سے وائرس پھیلنے کا امکان قدرے کم ہے۔ تاہم انہوں نے ان خدشات کو نظرانداز بھی نہیں کیا ہے۔ جانوروں میں چوں کہ اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے وہ بیمار نہیں پڑتے۔ مگر اگر وہ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو وہ ممنہ طور پر یہ وائرس ان کے پاخانے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Tarantino
پھل اور سبزیاں
جرمن ادارے بی ایف آر کے مطابق پھلوں اور سبزیوں سے کورونا وائرس کی افزائش کا اِمکان کسی حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اچھی طرح کھانا پکانے سے وائرس کے ختم ہونے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حدت سے وائرس ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
جمی ہوئی خوراک مفید نہیں
سارس اور میرس اقسام کے وائرس حدت پسند نہیں کرتے اور انہیں سردی میں فروغ ملتا رہا ہے۔ محقیقن کے مطابق منفی بیس ڈگری سینتی گریڈ میں بھی یہ وائرس کم از کم دو برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance /imageBROKER/J. Tack
جنگلی حیات سے خبردار
چین نے کووڈ اُنیس بیماری کے پھیلاؤ کے تناظر میں مختلف جنگلی حیات کی تجارت اور کھانے پر سخت پابندی عائد کر دی تھی جو ابھی تک برقرار ہے۔ چینی تحقیق سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ کورونا وائرس چمگادڑوں میں پیدا ہوا تھام جب کہ چمگادڑوں سے یہ کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔